تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے حقیقی فرماں روانے اس کو روکا ہے جیسا کہ فرمایا ہے {اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ} ۳؎ مجازی نافذ الفرمان یا بادشاہ وہی ہو سکتا ہے جو دوسروں کے مقابلہ میں کمال رکھتا ہو‘ پس ہر ۱؎ ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘ (الذاریات : ۵۱/۵۶) ۲؎ یعنی حکمران کی ذمہ داری ہے کہ وہ رعایا پر اللہ وحدہ لاشریک لہ کے احکام نافذ کرے اور جو مسلم حکمران ایسی ذمہ داری نبھائے‘ اسے شرعی اصطلاح میں خلیفہ کہتے ہیں۔ ۳؎ ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔‘‘ (النسا : ۴/۵۹) ایک صاحب کمال کا اپنے آپ سے نیچے درجہ والوں کو زیر فرمان دیکھنے کی توقع کرنا بھی ایک فطری تقاضا ہوا‘ لیکن چونکہ انسان میں اپنی فطرت کے خلاف کرنے اور اپنی قوتوں کو ترقی دینے کے بجائے تنزل کرنے کی بھی استعداد ہے‘ اس لیے ضروری تھا کہ ایسا بھی دیکھا جائے کہ ایک انسان جو ایک وقت میں دوسروں سے بہت ناقص اور پیچھے ہو جائے ‘ یا یہ کہ وہ ناقص یا پیچھے ہونے کی حالت میں اپنی فطرت کے خلاف اس چیز کی خواہش کرے‘ جو کسی طرح اس کا حق نہیں بلکہ ایک کامل کا ہے‘یہی وجہ ہے کہ حکومتوں اور بادشاہوں کے سلسلہ میں ہمیشہ کشمکش اور تلاطم ہی نظر آتا ہے‘ نافذ الفرمان ہونے کی دو بڑی قسمیں ہیں‘ ایک روحانی دوسری جسمانی‘ یا یوں کہے کہ ایک نبوت اور دوسری سلطنت۔ وہ کمالات جن کا سلطنت اور مادی حکومت سے تعلق ہے اور جو حکومت و فرمانبرداری کا موجب بنتے ہوئے دیکھے گئے ہیں‘ ان کا تذکرہ طالوت اور دائود علیہ السلام کی بادشاہتوں کے ذکر میں اس طرح ہے کہ: {وَ قَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا} ۱؎ ’’ان کے نبی نے ان سے کہا کہ خدائے تعالیٰ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ بنایا ہے۔‘‘ بنی اسرائیل نے طالوت کی بادشاہت کا حال سن کر اعتراض کیا تو جواب ملا کہ {اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ} ۲؎ یعنی خدائے تعالیٰ نے طالوت کو تمہارے اوپر بادشاہت کرنے کے لیے منتخب فرما لیا ہے اور طالوت کو علم اور جسم میں فوقیت حاصل ہے‘‘ پھر آگے دائود علیہ السلام کی نسبت فرمایا: {وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآئُ} ۳؎ تاریخی مطالعہ سے جہاں تک پتہ چلتا ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو کسی قوم کی عصبیت کا مرکز بننے اور علمی و جسمانی طور پر فوقیت حاصل کرنے کا موقع ملا وہ فوراً اس قوم کا فرمان روا اور سلطان تسلیم کرلیا گیا‘ اب سے تین ہزار سال پیشتر تک قوت جسمانی اور پہلوانی و بہادری ہی حکومت و سلطنت حاصل کرنے کے لیے ضروری چیز سمجھی جاتی تھی‘ جس کے ساتھ قوت دماغی بھی ایک ضروری چیز تھی۔ اس کے بعد بتدریج نسل انسان میں جوں جوں دوسرے صفات پیدا ہوتے گئے اسی مناسبت سے بادشاہوں کی صفات اور بادشاہت کی شرائط میں اضافہ ہوتا گیا‘ غرض کہ دنیا میں ہمیشہ بادشاہ کا مفہوم بہترین اور قیمتی انسان رہا ہے اور فتنہ و فساد کے ہنگامے قتل و غارت کے حوادث اسی وقت رونما ہوئے ۱؎ البقرۃ : ۲/۲۴۷