تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی علالت کی وجہ سے یہ لشکر مدینہ کے باہر رکا رہا اور آخر سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ ہو کر اس لشکر کو روانہ کیا‘ یہ لشکر سرحد شام تک گیا اور وہاں کے سرکش و باغی رئوسا کو درست کر کے چلا آیا۔ ہرقل کی فوجوں سے اس لیے مقابلہ پیش نہ آیا کہ رئوساء عرب مستنصرہ میں سے بعض بطیب خاطر اسلام کو حق سمجھ تسلیم کر چکے تھے اور ہرقل متامل تھا کہ یہ سرحدی ریاستیں اسلام میں داخل ہونے والی ہیں یا عیسائیت پر قائم رہ کر مسلمانوں کے مقابلہ پر مستعد ہونے والی ہیں‘ محض ان ریاستوں کی وجہ سے جو کئی بار اسلامی طاقت کے نظارے دیکھ چکی تھیں اور اصول اسلامی سے واقف ہو کر اسلام کی طرف مائل نظر آتی تھیں ہرقل کولڑائی کے لیے اقدام میں تامل تھا‘ وہ خود بھی اسلامی صداقت کا دلی طور پر معترف تھا لہذا ایک طرف مسلمانوں کی ترقی اس کے زوال سلطنت کا پیغام تھا اور وہ مسلمانوں کی طاقت کو پیش ازخطرہ مٹا دینا چاہتا تھا‘ دوسری طرف چونکہ اس کو انجام اور نتیجہ مشتبہ نظر آتا تھا لہذا آئندہ بہترین موقع کے انتظار میں وہ جنگ کو ٹالتا رہا‘ بہرحال وہ ہرقل جو ایرانیوں کی عظیم الشان شہنشاہی کو نیچا دکھا چکا تھا وہ ہمہ تن اسلامی طاقت کے برباد کرنے کی طرف متوجہ تھا اور کسی مناسب موقعہ کو ہاتھ سے گنوا دینے والا نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد جو تمام ملک عرب میں بد امنی اور ہلچل پیدا ہوئی تو ایک طرف ایرانیوں نے اور دوسری طرف رومیوں نے ان خبروں کو بڑے اطمینان و مسرت کے ساتھ سنا‘ دنیا میں پہلی ہی مرتبہ تمام براعظم و عرب نے ایک سلطنت اور ایک متحد طاقت کی شکل میں اپنے آپ کو جلوہ افروز کیا تھا اور اسی لیے رومیوں اور ایرانیوں کے درباروں نے اس ملک کو غور و التفات اور فکر و تردد کی نگاہ سے دیکھا تھا اور یہ دونوں حکومتیں بجائے خود الگ الگ اس جدید عربی طاقت یعنی حکومت اسلام کو مٹا دینے اور فنا کر دینے پر آمادہ تھیں‘ وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی خبر کے ساتھ ہی ارتداد کی خبروں نے ان دونوں حکومتوں کو بتا دیا تھا کہ ملک عرب کے پامال کرنے اور آئندہ خطرات کے مٹا دینے کا یہ بہترین وقت ہے‘ چنانچہ ایک طرف ہرقل کی فوجیں شام میں اور دوسری طرف ایران کی فوجیں عراق میں جمع ہونے لگیں۔۱؎ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی مآل اندیشی‘ ژرف نگاہی‘ موقعہ شناسی اور مستعدی کا اس طرح بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے فتنہ ارتداد کو جلد سے جلد مٹایا اور اس فتنہ کو فرو کرنے کے بعد ایک دن بھی ضائع کئے بغیر فوراً رومیوں اور ایرانیوں کے روکنے اور مدافعت کرنے کے لیے تمام ملک عرب کو آمادہ کر دیا‘ اگر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ چند روز اور فتنہ ارتداد کو مٹانے پر قادر نہ ہوتے یا فتنہ ارتداد کے مٹ جانے کے بعد چند روز تساہل اور تامل میں گذار دیتے تو مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم یعنی دارالخلافت اسلام رومیوں یا ایرانیوں کے محاصرہ میں آ کر مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ ہو چکا ہوتا‘ حیرت ہوتی ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیسا سخت و اہم کام کیسے نازک و محدود وقت میں کس احتیاط اور کس خوبی کے ساتھ انجام دیا اور اسلام کی روحانی و مادی حالت اور معنوی و ظاہری شان کو کس عظمت و جبروت کے ساتھ قائم رکھا۔ اب آگے رومیوں اور ایرانیوں کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائیاں شروع ہوتی ہیں‘ جو حالت ملک شام کی تھی‘ کہ اس کے جنوبی حصہ میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں عرب مستنصرہ