تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چکا تھا اور براعظم عرب کے کسی گوشہ اور کسی حصہ پر شرک و ارتداد کی کوئی سیاہی باقی نہ تھی۔ ایک طرف چند مہینے پہلے کی اس حالت پر غور کرو کہ مدینہ و مکہ و طائف کے سوا تمام ملک کا مطلع غبار آلود تھا اور اس غبار سے شمشیر و نیزہ و سنان اور کمندو کمان کے طوفان ابلتے ہوئے اور امنڈتے ہوئے نظر آتے تھے‘ پھریہ کیفیت تھی کہ پتھر کے موم کی طرح پگھلنے اور فولاد کی رگیں کچے دھاگے کی طرح شکستہ ہونے سے باز نہیں رہ سکتی تھیں‘ پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ہمتیں دریائوں کے پانی کی طرح بہ سکتی تھیں‘اور آسمان کی طرح بلند و وسیع حوصلے تنگ و پست ہو کر تحت الثریٰ کی گم نامیوں میں شامل ہو سکتے تھے‘ لیکن دبستان محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کے تربیت یافتہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہمت و حوصلہ کا اندازہ کرو کہ تنہا اس تمام طوفان کے مقابلہ کو جس شوکت و شجاعت کے ساتھ میدان میں نکلا ہے ہم اس کی مثال میں نہ شیرونہنگ کا نام لے سکتے ہیں نہ رستم و اسفندیار کا نام زبان پر لا سکتے ہیں‘ شیر نیستان و رستم و ستاں کے دلوں کو‘ اگر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دل کی طاقت کے سو حصوں میں سے ایک حصہ بھی ملا ہوتا تو ہم کو کسی مثال و تشبیہہ کی تلاش و تجسس میں سرگردانی کی ضرورت نہ تھی‘ لیکن اب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے کہ خیر البشر صلی اللہ علیہ و سلم کے شاگرد رشید‘ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کے خلیفہ اول نے ٹھیک اپنے مرتبہ کے موافق ہمت و استقلال اور قوت قدسی کا اظہار کیا اور جس کام کو اسکندر یونانی‘ جولیس ‘ سیرزرومی‘ کیخسرو ایرانی مل کر بھی پورا کرنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے‘ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے چند مہینوں میں اس کو بہ حسن و خوبی پورا کر کے دکھایا۔ اس میں شک نہیں کہ لشکر صدیق رضی اللہ عنہ میں خالد رضی اللہ عنہ عکرمہ رضی اللہ عنہ ‘ شرجیل رضی اللہ عنہ حذیفہ رضی اللہ عنہ وغیرہ جیسے بے نظیر مردان صف شکن موجود تھے‘ لیکن یہ بھی تو سوچو کہ صدیق اکبر کس طرح مدینہ منورہ میں بیٹھے ہوئے ملک کے ہر حصہ و ہر گوشہ کی حالت سے باخبر تھے اور کس طرح فوجی دستوں کے پاس ان کے احکام متواتر پہنچ رہے تھے‘ غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر دستہ فوج اور ہر سالار لشکر ملک عرب کی بساط پر شطرنج کے ایک مہرہ کی طرح تھا اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی انگشت تدبیر جس مہرہ کو جس جگہ مناسب ہوتا تھا اٹھا کر رکھ دیتی تھی اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان گیارہ اسلامی لشکروں نے ہر طرف روانہ ہو کر ملک عرب سے فتنہ ارتداد کو مٹا دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں بیٹھ کر شام و نجد سے مسقط و سیدنا موت تک اور خلیج فارس سے یمن و عدن تک تمام براعظم تک تنہا اپنی تدبیرو رائے سے چند مہینے کے اندر ہر ایک خس و خاشاک کو پاک و صاف کر دیا اور اس فتنہ کی ہمت شکن ابتداء میں کوئی متنفس صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سوا ایسا نہ تھا جو اس کی انتہا کو دیکھ سکتا اور اور صرف صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی کو وہ اندیشہ سوز ایمان حاصل تھا کہ انہوں نے نہ لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کو ملتوی کرنا مناسب سمجھا‘ نہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پائوں پھلا دینے والی باتوں سے مرعوب و متاثر ہوئے‘ نہ منکرین زکو ۃ کے مطالبات کو پرکاہ کے برابر وقعت دی‘ اب تم غور کرو اور سوچو کہ رسول اللہ صلی اللہ