تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جو لوگ طلیحہ کے لشکر میں شامل تھے ان کے پاس قبیلہ طے کے آدمیوں کو بھیجا کہ سیدنا خالد کے حملہ سے پہلے اپنے قبیلہ کو وہاں سے بلا لو‘ چنانچہ بنی طے کے سب آدمی طلیحہ کے لشکر سے جدا ہو کر آ گئے اور سب کے سب اسلام پر قائم ہو کر سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کے لشکر میں جو قریب پہنچ چکا تھا شامل ہو گئے‘ سیدنا خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نے بزاخہ کے میدان میں پہنچ کر لشکر طلیحہ پر حملہ کیا‘ جنگ و پیکار اور حملہ کے عام شروع ہونے سے پیشتر لشکر اسلام کے دو بہادر سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ اور ثابت بن اقرم رضی اللہ عنہ انصاری جو طلایہ گردی کی خدمت پر مامور تھے دشمنوں کے ہاتھ سے شہید ہو گئے تھے‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ثابت ابن قیس رضی اللہ عنہ کو اور نبی طے پر عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم کو سردار مقرر کر کے حملہ کیا‘ طلیحہ کے لشکر کی سپہ سالاری اس کا بھائی خیال کر رہا تھا اور طلیحہ ایک چادر اوڑھے ہوئے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے الگ ایک طرف وحی کے انتظار میں بیٹھا تھا‘ لڑائی خوب زور شور سے جاری ہوئی۔ جب مرتدین کے لشکر پر کچھ پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے تو طلیحہ کے لشکر کا ایک سردار عیینہ بن حصن طلیحہ کے پاس آیا اور کہا کہ کوئی وحی نازل ہوئی یا نہیں؟ طلیحہ نے کہا ابھی نہیں ہوئی‘ پھر تھوڑی دیر کے بعد عینیہ نے دریافت کیا اور وہی جواب پایا‘ وہ پھر میدان پر جا کر لڑنے لگا‘ اب دم بدم مسلمان غالب ہوتے جاتے تھے اور مرتدین کے پائوں اکھڑنے لگے تھے‘ عینیہ تیسری مرتبہ پھر طلیحہ کے پاس گیا اور وحی کی نسبت پوچھا تو اس نے کہا کہ ’’ہاں جبرائیل میرے پاس آیا تھا وہ کہہ گیا ہے کہ تیرے لیے وہی ہو گا جو تیری قسمت میں لکھا ہے‘‘۔ عینیہ نے یہ سن کر کہا کہ لوگو! طلیحہ جھوٹا ہے‘ میں تو جاتا ہوں‘ یہ سنتے ہی مرتدین یک لخت بھاگ پڑے‘ بہت سے مقتول ‘ بہت سے مفرور اور بہت سے گرفتار ہوئے‘ بہت سے اسی وقت مسلمان ہو گئے‘ طلیحہ معہ اپنی بیوی کے گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں سے بھاگا اور ملک شام کی طرف جا کر قبیلہ قضاعہ میں مقیم ہوا‘ جب رفتہ رفتہ تمام قبائل مسلمان ہو گئے اور خود اس کا قبیلہ بھی اسلام میں داخل ہو گیا تو طلیحہ بھی مسلمان ہو کر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مدینہ آیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی‘ عیینہ بن حصن بھی گرفتار ہو کر سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کے سامنے آیا‘ اس کو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے باندھ کر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ بھیج دیا‘ یہاں اس نے بڑی خواری کے ساتھ اسلام قبول کیا۔ مگر بعد میں ٹھیک ہو گیا۔ مقام بزاخہ پر لشکر طلیحہ جب شکست کھا کر بھاگا ہے تو مفروروں میں غطفان و سلیم و ہوازن وغیرہ قبائل کے لوگ مقام حواب میں جا کر جمع ہوئے اور سلمیٰ بنت مالک بن حذیفہ بن بدر بن ظفر کو اپنا سردار بنایا اور مقابلہ کی تیاری میں مصروف ہوئے‘ خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کو یہ حال معلوم ہوا تو وہ اس طرف متوجہ ہوئے‘ سلمیٰ اپنے لشکر کو لے کر مقابلہ پر آئی اور ایک ناقہ پر سوار ہو کر خود سپہ سالاری کی خدمت انجام دینے لگی‘ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے حملہ کیا‘ سخت مقابلہ ہوا‘ سلمیٰ کی ناقہ کی حفاظت میں سو آدمی مرتدین کے مقتول ہوئے‘ آخر سلمیٰ کا ناقہ زخمی ہو کر گرا اور سلمی مقتول ہوئی‘ اس کے مقتول ہوتے ہی مرتدین سے میدان خالی ہو گیا‘ یہاں یہ ہنگامہ برپا تھا اور ادھر مدینہ منورہ میں بنو سلیم کا ایک سردار الفجاء ۃ بن عبدیا لیل سیدنا