تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلم اور آغوش رسالت میں صبرواستقامت کی تعلیم نہ پائی ہوتی تو ان کی اور اسلام کی بربادی بہ ظاہر یقینی تھی‘ سوائے مدینہ‘ مکہ اور طائف تین مقاموں کے باقی تمام براعظم عرب میں فتنہ ارتداد کے شعلے پوری قوت اور اشتداد کے ساتھ بھڑک اٹھے تھے‘ ساتھ یہ خبریں بھی پہنچیں کہ مدینہ منورہ پر ہر طرف سے حملوں کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے مرض الموت میں شام کی جانب رومیوں کے مقابلہ کو لشکر اسلام کے ساتھ روانہ فرمایا تھا‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی علالت کے روبہ ترقی ہونے کے سبب یہ لشکر رکا ہوا تھا‘ اب بعد وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اس لشکر کو روانہ کرنا چاہا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ ایسی حالت میں جب کہ ہر طرف سے ارتداد کی خبریں آ رہی ہیں اور مدینے پر حملے ہونے والے ہیں اس لشکر کی روانگی کو ملتوی کر دیا جائے‘ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی قوت ایمانی‘ قوت قلب‘ ہمت و شجاعت اور حوصلہ و استقامت کا اندازہ کرو کہ انہوں نے سب کو جواب دیا کہ اگر مجھ کو اس بات کا بھی یقین دلایا جائے کہ اس لشکر کے روانہ کرنے کے بعد مجھ کو مدینہ میں کوئی درندہ تنہا پا کر پھاڑ ڈالے گا تب بھی میں‘ اس لشکر کی روانگی کو ہرگز ملتوی نہ کروں گا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے روانہ فرمایا تھا‘ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ تمام وہ لوگ جو لشکر اسامہ میں شامل تھے روانگی کی تیاری کریں اور مدینہ کے باہر لشکر گاہ میں جلد فراہم ہو جائیں۔ اس حکم کی تعمیل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے‘ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کے باپ سیدنا زید بنا حارثہ رضی اللہ عنہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غلام تھے اس لیے بعض لوگوں کے دلوں میں ان کی سرداری سے انقباض تھا‘ نیز سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی عمر اس وقت صرف سترہ سال کی تھی اس لیے بعض لوگوں کی خواہش تھی کہ کوئی معمر قریشی سردار مقرر فرمایا جائے‘ جب تمام لشکر باہر جمع ہو گیا تو سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو (کہ وہ بھی اس لشکر کے ایک سپاہی تھے) سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ پیغام دے کر روانہ کیا کہ بڑے بڑے آدمی سب میرے ساتھ ہیں آپ رضی اللہ عنہ ان کو واپس بلا لیں اور اپنے پاس رکھیں کیونکہ مجھ کو اندیشہ ہے کہ مشرکین حملہ کر کے آپ رضی اللہ عنہ کو اور مسلمانوں کو اذیت پہنچائیں‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لشکرگاہ سے سالار لشکر کا پیغام لے کر جب روانہ ہونے لگے تو انصار نے بھی ایک پیغام سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ خلیفہ کی خدمت میں روانہ کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ اس لشکر کا سردار کوئی ایسا شخص مقرر فرمائیں جو اسامہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ عمر کا ہو اور شریف النسل ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آ کر اول سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کا پیغام عرض کیا تو سیدنا صدیق اکبر نے فرمایا کہ اس لشکر کے روانہ کرنے سے اگر تمام بستی خالی ہو جائے اور میں تن تنہا رہ جائوں اور درندے مجھ کو اٹھا کر لے جائیں تب بھی اس لشکر کی روانگی ملتوی نہیں ہو سکتی‘ پھرانصار کا پیغام سن کر فرمایا کہ ان کے دلوں میں ابھی تک فخر و تکبر کا اثر باقی ہے‘ یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ خود اٹھے اور اس لشکر رخصت کرنے کے لیے پیدل مدینے سے باہر لشکر گاہ تک تشریف لائے‘ سیدنا