تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
…سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے حباب انصاری رضی اللہ عنہ کو جواب دیا کہ تم کو خوب یاد ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین کو وصیت کی ہے کہ انصار کے ساتھ نیک سلوک کرنا‘ انصار کو وصیت نہیں کی کہ مہاجرین کے ساتھ رعایت کا برتائو کرنا‘ یہ دلیل اس بات کی ہے کہ حکومت و خلافت مہاجرین میں رہے گی‘ سیدنا حباب بن المنذر رضی اللہ عنہ نے فوراً سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے کلام کو قطع کیا اور خود کچھ فرمانے لگے‘ نتیجہ یہ ہوا کہ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا حباب رضی اللہ عنہ دونوں زور زور سے باتیں کرنے لگے …سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے دونوں کو روکنے اور خاموش کرنے کی کوشش کی …اتنے میں سیدنا بشیر بن النعمان بن کعب بن الخزاج انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بیشک قبیلہ قریش سے تھے لہذا ان کی قوم یعنی قریش کے لوگ ہی خلافت کے زیادہ مستحق ہیں۔۔۔ ہم لوگوں نے بیشک دین اسلام کی نصرت کی اور ہم سابق بالایمان ہیں‘ لیکن ہمارا اسلام لانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی امداد کے لیے مستعد ہو جانا محض اس لیے تھا کہ خدائے تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے‘ اس کا معاوضہ ہم دنیا میں نہیں چاہتے اور نہ ہم خلافت و امارت کے معاملہ میں مہاجرین سے کوئی جھگڑا کرنا پسند کرتے ہیں …حباب رضی اللہ عنہ بن المنذر نے کہا کہ بشیر رضی اللہ عنہ تو نے اس وقت بڑی بزدلی کی بات کہی‘ اور بنے بنائے کام کو بگاڑنا چاہا ہے‘ سیدنا بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے بزدلی کا اظہار نہیں کیا بلکہ میں نے اس بات کو ناپسند کیا ہے کہ ایسی قوم سے خلافت و امارت کے متعلق جھگڑا کرو جو خلافت و امارت کی مستحق ہے‘ کیا اے حباب رضی اللہ عنہ ! تو نے سنا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ الائمۃ من قریش(امام قریش میں سے ہوں گے) سیدنا بشیر رضی اللہ عنہ کے اس کلام کی بعض دوسرے انصار نے بھی تائید و تصدیق کی اور اس باخداقوم نے اپنی دینوی اور مادی خدمات کو اپنے دینی و روحانی جذبات پر غالب نہ ہونے دیا‘ سیدنا حباب بن المنذر رضی اللہ عنہ بھی یہ باتیں سن کر خاموش ہو گئے اور انہوں نے فوراً اپنی رائے تبدیل کر لی۔ ان کے خاموش ہوتے ہی یک لخت تمام مجمع پر سکون و خاموشی طاری ہو گئی اور خلافت کے متعلق مہاجرین اور انصار کا نزاع یکایک دور ہو گیا‘ اب سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ عمر رضی اللہ عنہ اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں‘ تم ان دونوں میں سے ایک کو پسند کر لو‘ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں‘ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مہاجرین میں سب سے افضل ہیں یہ غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رفیق تھے‘ نماز کی امامت کرانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اپنا قائم مقام بنایا‘ حالانکہ نماز امور دین میں سب سے افضل شے ہے‘ پس سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا خلافت و امارت کا مستحق نہیں ہو سکتا‘ یہ فرمانے کے بعد سب سے پہلے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کے بعد سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا بشیر رضی اللہ عنہ بن سعد انصاری نے بیعت کی اوران کے بعد چاروں طرف سے لوگ بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے‘ یہ خبر باہر پہنچی اور لوگ سنتے ہی دوڑ پڑے‘ غرض تمام مہاجرین و انصار نے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بلا اختلاف متفقہ طور پر بیعت کر لی ۔۔۔۔ انصار