تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خلیفہ کے متعلق گفتگو ہوئی‘ چونکہ وہ مجمع انصار ہی کا تھا اور ایک سردار قبیلہ کی نشست گاہ میں تھا جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور قبیلہ خزرج تعداد نفوس اور مال و دولت میں انصار کے دوسرے قبیلہ اوس سے فائق و برتر تھا‘ لہذا اس مجمع کی گفتگو اور اظہار خیالات کا نتیجہ یہ تھا کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ یعنی جانشین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تسلیم کیا جائے۔ مہاجرین کی تعداد اگرچہ مدینہ میں انصار سے کم تھی لیکن ان کی اہمیت اور ان کی بزرگی و عظمت کا انصار کے قلوب پر ایسا اثر تھا کہ جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے خلافت کو انصار ہی کا حق ثابت کرنا چاہا تو انصار کے ایک شخص نے اعتراض کیا کہ مہاجرین انصار کی خلافت کو کیسے تسلیم کریں گے‘ اس پر ایک دوسرے انصاری نے کہا کہ اگر انہوں نے تسلیم نہ کیا تو ہم ان سے کہہ دیں گے کہ ایک خلیفہ تم اپنا مہاجرین میں سے بنا لو اور ایک خلیفہ ہم نے انصار میں سے بنا لیا ہے‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں یہ ایک کمزوری کی بات ہے‘ ایک اور انصاری نے کہا کہ اگر مہاجرین نے ہمارے خلیفہ کو تسلیم نہ کیا تو ہم ان کو بذریعہ شمشیر مدینہ سے نکال دیں گے‘ اس مجمع میں جو چند مہاجرین تھے انہوں نے انصار کی مخالفت میں آواز بلند کی اس طرح اس مجمع میں بحث و تکرار شروع ہو گئی‘ ممکن تھا کہ یہ ناگوار صورت ترقی کر کے جنگ و پیکار تک نوبت پہنچ جاتی۔ یہ خطرناک رنگ دیکھ کر سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ وہاں سے چلے اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں آ کر سقیفہ بنی ساعدہ کی روداد سنائی‘ یہاں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنی تقریر ختم کر کے تجہیز و تکفین کے سامان کی تیاری میں مصروف ہو چکے تھے‘ اس وحشت انگیز خبر کو سن کر سیدنا ابوبکر صدیق اپنے ہمراہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو لے کر سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف روانہ ہوئے اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنھم کو تجہیز و تکفین کے کام کی تکمیل میں مصروف چھوڑ گئے‘ اگر اس وقت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ذرا بھی تامل فرماتے تو اللہ تعالیٰ جانے کیسے کیسے خطرات رونما ہو جاتے۔ یہ تینوں بزرگ اس مجمع میں پہنچے تو وہاں عجیب افراتفری اور تو تو میں میں کا عالم برپا تھا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے وہاں اس مجمع کو مخاطب کر کے کچھ بولنا چاہا‘ لیکن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے روک دیا اور خود کھڑے ہو کر نہایت وقار و سنجیدگی کے ساتھ تقریر فرمائی۔ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ابھی تھوڑی دیر ہوئی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ازخودرفتگی دیکھ چکے تھے کہ وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں شمشیر بدست پھر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جو کوئی یہ کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فوت ہو گئے ہیں اس کا سر اڑا دوں گا‘ لہذا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو اندیشہ ہوا کہ یہاں بھی کہیں فرط جوش اور وفور غم میں کوئی اسی قسم کی بات نہ کہہ گذریں‘ لہذا انہوں نے خود مجمع کو مخاطب فرما کر تقریر شروع کی اور اسی کی ضرورت تھی‘ چنانچہ انہوں نے فرمایا … اول مہاجرین امراء ہوں گے اور انصار وزراء‘ …آپ رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر سیدنا حباب بن المنذر بن الجموح رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے