تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے اور مانگا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اور دیا‘ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جو کچھ تھا سب دے ڈالا‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میرے پاس جو کچھ آتا ہے اسے تم لوگوں سے بچا کر جمع نہیں رکھتا‘ اور بلاشبہ جو شخص اللہ سے یہ مانگتا ہے وہ اسے سوال کی ذلت سے بچائے تو اللہ اسے ذلت سے بچا لیتا ہے‘ اور جو استغنا چاہتا ہے اسے غنی کر دیتا ہے‘ جو شخص صبر اختیار کرتا ہے اللہ اسے صابر بنا دیتا ہے‘ اور کسی شخص کو عطایائے الٰہی میں سے کوئی عطیہ صبر سے زیادہ اچھا نہیں دیا گیا۔۲؎ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بار بار فرمایا کہ اگر میرے پاس کوہ احد کے برابر سونا ہو تب بھی مجھے خوشی اس وقت ہو کہ میں تین دن گذرنے سے پہلے ہی وہ سب تقسیم کر دوں اور میرے پاس سوائے اس کے جومیں ادائے قرض کے لیے اٹھا رکھوں اور باقی نہ رہے۔ بعض اوقات جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا اور کوئی حاجت مند آ جاتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرض تک لے کر اس کی حاجت روائی میں تامل نہ ہوتا تھا اور بالعموم آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر اسی قسم کے قرض تھے‘ ورنہ اپنی ذاتی ضرورتوں کو قرض لے کر پورا کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم بالکل بے نیاز تھے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھا میرا اونٹ تھک کر پیچھے رہ گیا‘ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم آ گئے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کیوں جابر کیا حال ہے‘ میں نے عرض کیا کہ میرا اونٹ تھک گیا ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے اونٹ کے ایک تسمہ مارا تو وہ خوب تیز چلنے لگا‘ پھر ہم دونوں باتیں کرتے ہوئے چلے‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے پوچھا کہ تم یہ اونٹ فروخت کرتے ہو‘ میں نے کہا ہاں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ مجھ سے خرید لیا‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم آگے تشریف لے گئے اور میں ذرا دن چڑھے پہنچا‘ میں نے اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ اونٹ کو چھوڑ دو اور مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھو‘ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا ۱؎ صحیحبخاریکتابالجنائزحدیث۱۳۰۳۔صحیحمسلمکتابالفضائلبابرحمۃالصبیان۔ ۲؎ صحیحبخاریکتابزکوٰۃحدیث۱۴۶۹۔صحیحمسلمکتابالزکوٰۃبابفضلالتعففوالصبر۔ بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اونٹ کی قیمت ادا کر دو‘ میں قیمت لے کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے پھر بلایا میں ڈرا کہ میرا اونٹ واپس کر دیا جائے گا‘ مگر میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اونٹ بھی لے جائو اور اس کی قیمت تمہاری ہو چکی‘ اسے بھی اپنے ہی پاس رہنے دو۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی جنگل میں تشریف لیے جاتے تھے ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے زمین کھود کر دو مسواکیں نکالیں‘ ایک سیدھی‘ تھی ایک ٹیڑھی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹیڑھی خودلی اور سیدھی اپنے ہمراہی کودی۔ انہوں نے عرض کیا کہ سیدھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم