تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رکاب تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت ایک موٹے کنارے کی چادر اوڑھے ہوئے تھے‘ ایک بدوی نے چادر کا کنارہ پکڑ کر اس زور سے جھٹکا دیا کہ چادر کے کنارے کی رگڑ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے شانے اور گردن پر نشان پڑ گیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے اس مال میں سے جو تیرے پاس ہے میرے دونوں اونٹوں پر بھی کچھ لاد دے‘ کیونکہ اس میں سے جو کچھ تو مجھے دے گا وہ کچھ تیرا یا تیرے باپ کا مال نہیں ہے‘ یہ تلخ اور سخت کلام سن کر اول تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرط حلم و کرم سے خاموش رہے‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بے شک مال تو اللہ تعالی کا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں مگر تو یہ تو بتا کہ تیرے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو تو نے میرے ساتھ کیا ہے‘ اس نے کہا نہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کیوں نہیں؟ اس نے کہا کیونکہ تو برائی کے عوض برائی نہیں کرتا‘ یہ سن کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسکرائے‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ اس کے ایک اونٹ پر جو اور ایک اونٹ پر کھجوریں لاد کر دے دو۔۱؎ ایک مرتبہ ایک یہودی زید بن سعنہ اسلام لانے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اپنے کچھ قرض کا تقاضہ کرنے آیا‘ اور بہت ہی درشتی سے بولا کہ تم اولاد عبدالمطلب بڑے ہی نادہندہ اور وعدہ خلاف ہو‘ اس کی اس بد زبانی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو مسکراتے ہی رہے‘ مگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے جھڑک کر ایسی بیہودہ گوئی سے روکنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا‘ کہا اے عمر رضی اللہ عنہ ! تو نے ہم دونوں سے وہ طرز عمل اختیار نہیں کیا جو ہونا چاہیے تھا‘ مناسب یہ تھا کہ تم اسے نہ جھڑکتے بلکہ حسن طلب اور نرمی کے ساتھ تقاضا کرنے کی نصیحت کرتے اورمجھ سے ایفائے وعدہ اور ادائے قرض کے لیے کہتے‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ اس کا قرض ادا کر دو اور جھڑکنے کے معاوضہ میں بیس صاع یعنی ڈیڑھ من جو اور دے دو‘ حالانکہ میعاد قرض میں ابھی تین دن باقی تھے اور وہ یہودی قبل از انقضائے میعاد ہی تقاضا کرنے آ گیا تھا‘ اس حلم‘ نیک طینتی اور خوش خوئی کا یہ اثر ہوا کہ وہ یہودی مسلمان ہو گیا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ابوسیف لوہار کے یہاں گئے‘ جس کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کو دودھ پلاتی تھیں‘ اس وقت ابراہیم بالکل جاں بلب تھے‘ ان کی حالت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو آب دیدہ دیکھ کر سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی بے صبری کا اظہار فرماتے ہیں‘ ۱؎ صحیحبخاریکتابالادبحدیث۶۰۸۸۔صحیحمسلمکتابزکوٰۃ۔باباعطاءالمؤلفۃ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا‘ اے ابن عوف رضی اللہ عنہ ! یہ آنسو رحم و شفقت کی وجہ سے ہیں‘ بے صبری و ناشکری کی وجہ سے نہیں ہیں‘ اور بے شک دل رنج کرتا ہے اور آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں لیکن ہم کوئی ایسی بات نہیں کہتے جو رضائے الٰہی کے خلاف ہو۔۱؎ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ انصار میں کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ مانگا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو دے دیا‘ انہوں