تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
والا ہوں‘ اللہ کے بندو! غرور اور تکبر اختیار نہ کرو‘ جنت ان لوگوں کے لیے ہے جو تکبر اور فساد نہیں کرتے‘ آخرت کی بھلائی متقیوں کے لیے اور غرور کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا‘ مجھ کو میرے قریبی رشتہ دار غسل دیں‘ پھر فرمایا میرا جنازہ میری قبر کے کنارے رکھ کر ایک ساعت کے لیے الگ ہو جانا تاکہ ملائکہ مجھ پر نماز پڑھ لیں‘ بعد ازاں گروہ کے گروہ مجھ پر نماز پڑھنا‘ پہلے میرے خاندان کے مرد نماز پڑھیں‘ بعد ازاں ان کی عورتیں ‘ بیماری کی آخری حالت میں تین روز تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم صاحب فراش رہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم امامت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ مسجد میں نمازوں کی امامت کے لیے مقرر فرمایا‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے عرض کیا کہ میرے باپ اس خدمت کو انجام نہ دے سکیں گے‘ کیونکہ وہ زیادہ رقیق القلب ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو امام مقرر فرما دیں۔ آپ نے فرمایا نہیں! ابوبکر ہی امامت کریں گے۔ ۱؎ سیدنا ابوبکر مسجد میں نماز پڑھا رہے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کچھ افاقہ محسوس ہوا اور مسجد میں تشریف لے آئے‘ حالت نماز ہی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تشریف لے آنے پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امام کی جگہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے خالی کرنے اور خود پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مونڈھے کے پاس سے پکڑ کر وہیں قائم رکھا‘ اور انہوں نے آپ کی اقتداء میں نماز ادا کی۔۲؎ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا کہ اپنے باپ اور بھائی کو بلائو کہ میں تمہارے باپ کے لیے خلافت نامہ لکھ دوں پھر فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے‘ کیونکہ مسلمان سوائے ان کے دوسرے کو سردار مقرر نہ کریں گے‘ اور خدائے تعالی کی مشیت یہی ہے۔۳؎ اسی طرح صحیحین میں یہ بھی مذکور ہے کہ ایک روز حالت مرض میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کاغذ اور قلم دوات طلب کیا‘ چونکہ اس وقت عارضہ کی شدت تھی‘ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ۱؎ صحیحبخاریکتابالاذانحدیث۶۶۴۔صحیحمسلمکتابالصلوٰۃباباستخلافالامام۔ ۲؎ صحیحبخاریکتابالاذانحدیث۶۶۴۔صحیحمسلمکتابالصلوٰۃباباستخلافالامام۔ ۳؎ صحیحبخاریکتابالمرضیٰحدیث۵۶۶۶۔صحیحمسلمکتابالفضائلبابفضائلابیبکر رضی اللہ عنہ ۔ اذیت نہ دی جائے‘ ہمارے واسطے قرآن مجید ہی کافی ہے‘ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرما چکے ہیں‘ بعض صحابہ رضی اللہ عنھم نے فرمایا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو متوجہ کیا جائے اور پوچھا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیا لکھواتے ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لوگوں کے باتیں کرنے کی آواز ناگوار معلوم ہوئی‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیا لکھوانا چاہتے ہیں فرمائیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم مجھ کو اسی حالت میں رہنے دو جس میں میں ہوں اور باہر چلے جائو۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو درد کی سخت شدت اور اذیت تھی اس لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نہیں چاہتے تھے کہ ایسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو