تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
غرض یہ اعلان حج کے موقع پر ضروری تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ آیتیں دے کر اپنی اونٹنی پر سوار کرا کر روانہ کیا اور حکم دیا کہ بعد حج یوم النحر کھڑے ہو کر سب کو سنا دینا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۵۶۲ تا ۵۶۵۔ زاد المعاد بہ حوالہ الرحیق المختوم‘ ص ۵۷۶ و ۵۷۷۔ ۲؎ صحیحبخاریکتابالحجحدیث۱۶۲۲۔صحیحمسلمکتابالحجبابلایحجالبیتمشرک۔ روانہ ہوئے اور منزل ذوالحلیفہ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قافلے سے جا ملے‘ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا‘ تم امیر ہو کر آئے ہو یا مامور ہو کر‘ سیدنا نے جواب دیا کہ مامور ہو کر آیاہوں ‘ امیر آپ ہی رہیں گے‘ مجھ کو صرف یہ آیتیں سنانے کا حکم دیا گیا ہے‘ وہاں سے روانہ ہو کر مکہ میں پہنچے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امیر ہونے کی حیثیت سے ارکان حج ادا کئے‘ اس کے بعد سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے سورہ براء ۃ کی آیات سنائیں۔۱؎ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنھا کی وفات ہوئی‘ اسی سال حج فرض ہوا‘ اسی سال حج مسلمانوں کے زیر اہتمام ہوا‘ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو مناسک حج کی تعلیم دی‘ اس حج کے بعد تمام مشرکین کو صرف چار مہینے کی مہلت دی گئی اور اعلان کیا گیا کہ چار مہینے کے بعد اللہ تعالیٰ اور رسول مشرکوں سے بری الذمہ ہیں‘۲؎ اس اعلان کو سن کر مکہ میں جو لوگ ابھی تک شرک پر قائم تھے وہ بھی اسلام میں داخل ہو گئے‘ اور ہر طرف سے جوق در جوق آ آ کر قبائل مسلمان ہونے شروع ہوئے‘ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اسی سال تبوک سے واپس ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایران کے بادشاہ کسریٰ کے نام خط روانہ کیا تھا‘ جس کا ذکر اوپر ۷ ھ میں آ چکا ہے‘ اسی سال عبداللہ بن ابی فوت ہوا۔ --- ۱؎ سیرت ابن ہشام‘ ص ۵۵۳۔ زاد المعاد بہ حوالہ الرحیق المختوم‘ ص ۵۹۲۔ ۲؎ ایضاً۔