تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خاتم النبیین ہماری مدد کیجئے اور فریاد سنئے بنی بکر نے ہم پر ظلم کیا ہے‘ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ام المومنین سیدنا میمونہ رضی اللہ عنھا کے حجرے میں وضو کر رہے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خزاعہ والوں کی یہ فریاد جو مکہ میں کر رہے تھے مدینہ میں سنی اور فوراً جواب میں ’’لبیک لبیک‘‘ فرمایا۔ سیدنا میمونہ رضی اللہ عنھا نے عرض کیا کہ لبیک آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کس کے جواب میں کہا‘ ۱؎ زاد المعاد۔ سیرت ابن ہشام بہ حوالہ الرحیق المختوم‘ ص ۵۳۲ تا ۵۳۴۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ اس وقت بنو خزاعہ کے لوگوں کی فریاد میرے کانوں تک پہنچی ہے اس کا جواب میں نے دیا ہے۔ عجیب تر یہ کہ بنو خزاعہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز اپنی فریاد کے جواب میں سنی۔۱؎ صبح کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا کہ رات مکہ میں بنو خزاعہ کو بنو بکر اور قریش نے مل کر قتل کیا ہے‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا گمان ہے کہ قریش بد عہدی کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ انہوں نے ضرور عہد شکنی کی ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ ان کے حق میں حکم صادر کرنے والا ہے‘ کئی روز کے بعد بدیل بن ورقا اور عمروبن سالم خزاعی مدینے میں پہنچے‘ قریش مکہ کی عہد شکنی اور مظالم کی شکایت کی‘ عمرو بن سالم خزاعی نے ایک نہایت پردرد نظم میں اپنی مظلومی کی داستان سنائی‘ اس نظم کے بعض شعر یہ ہیں۔ ان قریشا اخلفوک الموعدا ونقضوا میثاقک الموکدا قریش نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے! اور انہوں نے مضبوط معاہدہ کو جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا تھا توڑ ڈالا ہے۔ وجعلوا لی فی کداء رصدا وزعموا ان لست ادعوااحدا اور ہمیں خشک گھاس کی طرح پامال کر دیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری مدد کو کوئی نہ آئے گا۔ و ھم اذل و اقل عد داً! ھم بیتونا بالوتیر ھجدا اور وہ ذلیل ہیں اور تعداد میں قلیل ہیں۔ انہوں نے وتیر (وہ محلہ جہاں بنو خزاعہ آباد تھے) ہم کو سوتے ہوئے جا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو خزاعہ کے ان لوگوں کی تسلی تشفی کی اور کہا کہ ہم تمہاری امداد کو ضرور پہنچیں گے‘ ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینے سے مکہ کی جانب رخصت فرما دیا‘ جب یہ لوگ مدینے سے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ابوسفیان مکہ سے مدت صلح بڑھانے اور عہد کو مضبوط کرنے کے لیے روانہ ہو گیا‘ لیکن وہ ناکام واپس جائے گا۔۲؎ مکہ والوں کو جب اپنے کرتوت کے نتائج پر غور کرنے کا موقع ملا تو وہ بہت خائف ہوئے اور ابوسفیان کو روانہ کیا کہ مدینے میں جا کر شرائط صلح از سر نو قائم کرے‘ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں ۱؎ یہ واقعہ صحیح سند سے ثابت نہیں۔ ۲؎ سیرت ابن ہشام ص ۴۸۷ و ۴۸۸۔