تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رضی اللہ عنہ کو دیا کہ یہ تیر کنویں میں ڈال دو‘ تیر کے ڈالتے ہی پانی کنویں میں اس قدر بڑھ گیا کہ لشکر اسلام کو پانی کی قطعاً تکلیف نہ ہوئی‘ جب حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم مقیم ہوئے تو قریش مکہ کی جانب سے بدیل بن ورقاء خزاعی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چند لوگوں کے ہمراہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے آنے کا سبب دریافت کیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ قافلہ کے آگے قربانی کے اونٹوں کی قطار ہے اور ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔ بدیل یہ سن کر واپس چلا گیا‘ اور قریش مکہ سے کہا کہ تم ناحق شور و غوغا مچا رہے ہو‘ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تو صرف بیت اللہ کی زیارت کو آئے ہیں‘ تم سے لڑنے کو نہیں آئے‘ قریش کے فتنہ پسند لوگوں نے کہا کہ ہم ان کو بیت اللہ کی زیارت کے لیے بھی نہیں آنے دیں گے‘ لیکن ان کے سمجھ دار لوگ کچھ خاموش ہو کر سوچنے لگے۔ اس کے بعد اہل مکہ نے حلیس بن علقمہ کنانی قبائل احابیش کے سردار اعظم کو قاصد بنا کر بھیجا‘ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تک بھی نہیں آیا بلکہ قربانی کے اونٹوں کو دیکھ کر راستہ ہی سے واپس چلا گیا اور کہا کہ مسلمان لڑنے کے ارادہ سے نہیں آئے بلکہ عمرے کے ارادہ سے آئے ہیں‘ زیارت کعبہ سے روکنے کا کوئی حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ یہ سن کر قریش نے کہا کہ تم جنگلی آدمی کچھ نہیں جانتے ہو‘ ہم مسلمانوں کو ہرگز مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے ورنہ ہماری بڑی بے عزتی ہوگی‘ حلیس کو سن کر غصہ آ گیا اس نے کہا کہ اگر تم مسلمانوں کو عمرہ نہ ادا کرنے دو گے تو میں اپنے تمام آدمیوں کو لے کر تم سے لڑوں گا۔ یہ رنگ دیکھ کر قریش نے حلیس کے غصہ کو ٹھنڈا کیا اور منت و سماجت کے ساتھ سمجھا بجھا کر اسے خاموش کیا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خراش بن امیہ خزاعی کو تغلب نامی اونٹ دے کر قریش مکہ کے پاس روانہ کیا اور کہلا بھیجا کہ ہم لڑنے کے ارادہ سے نہیں آئے‘ ہمارا مقصود صرف زیارت کعبہ سے مشرف ہونا اور قربانی ادا کرنا ہے‘ خراش نے یہ پیغام قریش کو پہنچایا۔ قریش نے خراش کے اونٹ کو ذبح کر دیا اور خراش کو بھی مار ڈالنا چاہا‘ لیکن حلیس اور اس کے لوگوں نے خراش کو قریش مکہ کے چنگل سے بچا کر واپس روانہ کر دیا‘ اور اس کے بعد قریش کے خود سر نو جوانوں کی ایک جماعت مکہ سے نکل کر وادی ۱؎ صحیحبخاریکتابالشروطحدیث۲۷۳۱۲۷۳۲۔ میں آئی کہ موقعہ پا کر مسلمانوں پر حملہ آور ہو لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان کو دیکھ لیا اور سب کو گرفتار کر لیا‘ مگر بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کے موافق سب کو رہا کر دیا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارادہ کیا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اہل مکہ کے پاس بھیجیں‘ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ مجھ کو اہل مکہ کے پاس جانے میں کوئی عذر نہیں ہے‘ لیکن مکہ میں میرے قبیلہ بنو عدی بن کعب کا کوئی آدمی نہیں ہے جو مجھ کو اپنی حمایت میں لے لہذا میرا جانا خطرہ کا موجب ہو سکتا ہے‘ مجھ سے بہتر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں‘ کیونکہ ان کے قبیلہ بنو امیہ کے بہت سے بااثر اور طاقت ور آدمی موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اس تجویز کو بہت پسند فرمایا اور سیدنا عثمان غنی رضی