تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خون مارو کیونکہ اس روز ہمارے یہاں قتل کرنا اور حملہ آور ہونا ناجائز ہے‘ مسلمان اس رات کو ہماری طرف سے بالکل بے فکر اور غافل ہوں گے اس لیے ہمارا شبخون بہت کامیاب رہے گا اور ہم مسلمانوں کا بہ کلی استیصال کر دیں گے‘ اس بات پر بھی بنو قریظہ رضا مند نہ ہوئے اور کہا کہ ہم سبت کی بے حرمتی بھی نہیں کرنا چاہتے‘ شرفاء بنو قریظہ میں سے تین شخصوں نے جن کے نام ثعلبہ بن سعید‘ اسد بن عبید اور اسید بن سعید تھے اسلام قبول کر لیا‘ ایک شخص عمروبن سعد نے کہا کہ میری قوم بنو قریظہ نے بدعہدی کی ہے میں اس بدعہدی میں اس کا شریک نہیں رہنا چاہتا‘ یہ کہہ کر وہ قلعہ سے باہر نکل گیا اور لشکر اسلام کے ایک سردار محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے جو طلایہ گردی کی خدمت انجام دے رہے تھے اس کو قلعہ سے نکلتے ہوئے دیکھا‘ اس کا نام و نشان اور ارادہ معلوم کر لینے کے بعد نکل جانے دیا مگر گرفتار نہیں کیا۔ آخر ایک صبح کو بنو قریظہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم اپنے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس شرط پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سپرد کرتے ہیں کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہمارے لیے جو سزا تجویز کریں وہی سزا ہم کو دی جائے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شرط کو قبول فرما لیا‘ بنو قریظہ نے جب اپنے آپ کو مسلمانوں کے سپرد کر دیا تو قبیلہ بنی اوس کے مسلمان انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ جب زمانہ جاہلیت میں اوس اور خزرج کی لڑائیاں ہوتی تھیں تو بنو قریظہ ہمارے یعنی قبیلہ اوس کے طرفدار ہوتے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبیلہ بنو قینقاع کو قبیلہ خزرج کے انصار کی مرضی کے موافق چھوڑ دیا تھا‘ اب ہماری باری ہے‘ لہذا بنو قریظہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہم کو حکم مقرر فرمائیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہم نے پہلے ہی تمہارے قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم تسلیم کر لیا ہے‘ اور بنو قریظہ نے بھی سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف سے وکیل مطلق بنا دیا ہے۔ یہ سن کر قبیلہ اوس کے تمام انصار خوش ہو گئے‘ چنانچہ اسی وقت انصار مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف روانہ ہو گئے‘ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مجروح اور زیر علاج تھے‘ ان کو لشکر اسلام کی طرف لائے‘ راستے میں لوگ ان سے کہتے آتے تھے کہ آپ کا فیصلہ ناطق ہو گا‘ اب آپ کو موقع حاصل ہے کہ نبو قریظہ کے ساتھ رعایت کریں‘ سعد ابن معاذ نے جب اس قسم کی باتیں اپنی قوم کے آدمیوں سے سنیں تو انہوں نے کہا کہ انصاف و عدل کے مطابق فیصلہ کروں گا اور کسی کی ملامت دامن گیر نہ ہونے دوں گا‘ جب سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی سواری قریب پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار کو جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں موجود تھے حکم دیا کہ اپنے سردار کی تعظیم کو اٹھو‘ چنانچہ سب نے ان کو عزت و تعظیم کے ساتھ لیا‘ اس کے بعد سیدنا سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمہارے قدیمی دوستوں یعنی بنو قریظہ کا معاملہ تمہارے سپرد کر دیا ہے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ تم سب خدائے تعالی کو حاضر و ناظر جان کر اقرار کرو کہ میرے فیصلہ کو بخوشی قبول کرو گے اورکوئی چون و چراں نہ کرو گے‘ سب نے اقرار کیا کہ ہم تمہارے فیصلہ پر رضا مند ہوں گے‘ پھر سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے یہی اقرار رسول اللہ صلی اللہ