تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے سب کا قصہ پاک کرنے پر مجبور ہوئے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے مصریوں اور ان کے متکبر بادشاہ کو راہ راست پر لانے کی امکانی کوشش کی لیکن بالآخر موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل نے وہ نظارہ دیکھا جس کی نسبت ارشاد ہے کہ : {وَ اَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ} ۶؎ ہندوستان میں مہاراجہ رام چندر جی کو لنکا پر چڑھائی اور راکھشسوں سے لڑائی کرنی پڑی شری کرشن مہاراج کو کرکشتر کے میدان میں ارجن کو جنگ پر آمادہ کرنا اور کوروں کی نافرمان جماعت کو پانڈوں کے ہاتھوں برباد کرانا پڑا‘ ایران میں زرتشت نے اسفند یار کی پہلوانی اور سلطنت کیانی کی حکمرانی کو ذریعہ‘ تبلیغ و اشاعت بنایا۔ ۱؎ یعنی دھرم پر عمل نہیں ہوتا۔ ۲؎ بے دینی ۳؎ حفاظت کرنا‘ خیال رکھنا۔ ۴؎ خاتمہ ۵؎ ’’ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑا‘‘ (نوح : ۷۱ / ۲۶) ۶؎ ’’پھر تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونیوں کو غرقاب کر دیا۔‘‘ (البقرۃ : ۲ /۵۰) مگر ماضی کے صحائف اور عمرانی روایات جو اہل نظر تک پہنچی ہیں سب کی سب متفق ہیں کہ تمام قابل تکریم بانیاں مذاہب اور مستحق احترام ہادیان صداقت کی کوششوں اور کامیابیوں میں یہ نظیر ہرگز تلاش نہیں کی جا سکتی کہ پچیس سال سے کم مدت میں دنیا کا بہترین ملک اور عرب کے جاہل وحشی لوگ ساری دنیا کے معلم اور سب سے زیادہ مہذب و با اخلاق بن گئے ہوں‘ سو برس سے کم یعنی صرف اسی سال کے عرصہ میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لائے ہوئے مذہب کو ماننے والے بحراطلا نطک سے بحرالکاہل یعنی چین کے مشرقی ساحل تک یا‘ یوں کہے کہ تمام متمدن دنیا کا احاطہ کر چکے ہوں‘ اس محیر العقول اور خارق عادت کامیابی کی نظیر دنیا پیش نہیں کر سکتی اور تعلیم اسلامی کی خوبی اگر تمام قوانین مذاہب پر فائق اور محاسن ملل کی جامع ہے تو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے خیر البشر‘ خاتم النبیین‘ رحمتہ للعالمین ہونے میں کسی کو کیا کلام ہو سکتا ہے؟ اور دنیا میں کس کا حوصلہ ہے جو ان کی لائی ہوئی کتاب قرآن مجید کی اس لانظیر صفت اور اس ناقابل تردید دعوی اور خدائی دعوی کی تردید پر آمادہ ہو سکے کہ : {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ} ۱؎ قوموں کو منازل ترقی طے کرانے اور قوموں کو ذلت و پستی سے بچانے کے لیے تاریخ ایک زبردست مؤثر اور نہایت قیمتی ذریعہ ہے‘ قومیں جب کبھی قعر مذلت سے بام ترقی کی طرف متحرک ہوئی ہیں انہوں نے تاریخ ہی کو سب سے بڑا محرک پایا ہے‘ قرآن کریم نے ہم کو یہ بھی بتایا ہے کہ سعادت انسانی اور دین و دنیا کی کامرانی حاصل کرنے کے لیے تاریخ کا مطالعہ نہایت ضروری ہے‘ چنانچہ خدائے تعالٰے نے لوگوں کو عبرت پذیر اور نصیحت یاب ہونے کے لیے کلام پاک میں جا بجا امم سابقہ کے حالات یاد دلائے ہیں کہ فلاں قوم نے اپنی بد اعمالیوں کے کیسے بدنتائج دیکھے اور فلاں قوم اپنے اعمال حسنہ کی بدولت کیسی کامیاب و فائزالمرام ہوئی‘ آدم‘ نوح‘ ابراہیم‘ موسیٰ ( علیھم السلام ) وغیرہم کے واقعات اور فرعون نمرود‘ عاد‘ ثمود وغیرہم کے حالات قرآن کریم میں اسلیے مذکور و مسطور نہیں کہ ہم ان کو دل بہلانے اور نیند لانے کا سامان بتائیں بلکہ یہ سچے اور یقینی حالات اس لیے ہمارے سامنے پیش کئے گئے ہیں کہ ہمارے اندر نیک کاموں کے کرنے کی ہمت اور بداعمالیوں سے دور رہنے کی جرأت پیدا ہو اور ہم اپنے حال کو بہترین مستقبل کا ذریعہ بنا سکیں۔