تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
روما کی عظیم الشان سلطنت کے ٹکڑے ہو چکے تھے۔ اس کے نیم وحشیانہ آئین و قوانین بھی مسخ ہو کر اپنے مظالم و معائب کو اور بھی زیادہ مہیا و موجود اور محاسن کو جو پہلے ہی بہت کم تھے معدوم و مفقود کر چکے تھے‘ ایران کی بادشاہی ظلم و فساد کا ایک مخزن بنی ہوئی تھی‘ چین و ترکستان خونریزی و خونخواری کا مامن نظر آتے تھے‘ ہندوستان میں مہاراجہ اشوک اور راجہ کنشک کے زمانہ کا نظام و انتظام ناپید تھا‘ مہاراجہ بکرماجیت کے عہد سلطنت کا تصور بھی کسی کے ذہن میں نہیں آ سکتا تھا۔ نہ بدھ مذہب کی حکومت کا کوئی نمونہ موجود تھا۔ نہ برہمنی مذہب کا کوئی قابل تذکرہ پتہ و نشان دستیاب ہو سکتا تھا‘ عارف بدھ کا نام عقیدت سے لینے والوں کی حالت یہ تھی کہ حکومت کے لالچ‘ دنیا طلبی کے شوق اور ضعیف الاعتقادی کے نتیجہ میں سخت سے سخت قابل شرم حرکات کے مرتکب ہو جاتے تھے‘ شری کرشن کے نام کی سمرن جپنے والوں کی کیفیت یہ تھی کہ اشرف المخلوقات کو نباتات و جمادات کے آگے سربسجود بنا دینے میں ان کو دریغ نہ تھا‘ یورپ اگر ایک بیابان گرگستان اور وہاں کے باشندے خوں آشام و مردم کش درندے تھے تو عرب تمام عیوب و فسادات کا جامع تھا اور وہاں کے باشندے حیوانوں سے بھی بدتر حالت کو پہنچ چکے تھے۔غرض کہ دنیا کے کسی ملک اور کسی خطہ میں انسانی نسل اپنی انسانیت اور شرافت پر قائم نظر نہیں آتی تھی اور بحروبر سب مائوف ہو چکے تھے۔ ایسی حالت میں جب کہ تمام دنیا تیرہ و تار ہو چکی تھی‘ ہندوستان والوں کا فرض تھا کہ وہ گیتا کے چوتھے باب میں شری کرشن مہاراج کے اس ارشاد پر غور کرتے کہ: ’’اے ارجن جب دھرم کی ہانی۱؎ ہوتی ہے اور ادھرم۲؎ بڑھ جاتا ہے‘ تب میں نیک لوگوں کی رکھشا۳؎ کرتا ہوں اور پاپوں کا ناش۴؎ کر کے دھرم کو قائم کرتا ہوں۔‘‘ ایران والوں کا فرض تھا کہ وہ شست و خشور زرتشت کے ارشادات کے موافق کسی رہبر کی تلاش میں نکلتے‘ یہودیوں کے لیے وقت آ گیا تھا کہ وہ فاران کے پہاڑوں کی چوٹیوں سے روشنی کے نمودار ہونے کا انتظار کرتے اور معماروں کے رد کئے ہوئے پتھر کو کونے کا پتھر بنتے ہوئے دیکھ کر ضد اور انکار سے باز رہتے۔ عیسائیوں کا فرض تھا کہ وہ دعائے خلیل اور نوید مسیحا کو اپنی امید گاہ بناتے۔ لیکن دنیا کے عالمگیر فساد اور زمانہ کی ہمہ گیر تاریکی نے دلوں کو اس قدر سیاہ اور آنکھوں کو اس قدر بے بصارت بنا دیا تھا کہ کسی کو اتنا بھی ہوش نہ تھا کہ اپنے آپ کو مریض جانتا اور دوا کی طلب میں قدم اٹھاتا۔ ایسے زمانے اور ملک عرب جیسے خطے میں ہادی برحق رسول رب العالمین خیر البشر‘ شفیع المذنبین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے شرک کی خباثت‘ بت پرستی کی تاریکی‘ فتنہ و فساد کی نجاست اور عصیان و بے شرمی کی پلیدی کو دور کرنے کے لیے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی آواز بلند کر کے انسان نما لوگوں کو انسان‘ انسانوں کو بااخلاق انسان اور با اخلاق انسانوں کو با خدا انسان بنا کر دنیا کی تاریکی و ظلمت کو ہدایت‘ نور ‘ امن‘ راستی اور نیکی سے تبدیلی کرنے‘ یعنی گمراہ‘ بت پرست‘ عصیاں شعار لوگوں کو مسلمان بنانے کا فریضہ انجام دیا۔ سیدنا نوح علیہ السلام عراق عرب کے گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لانے میں سینکڑ وں برس مصروف تبلیغ رہ کر بالآخر {رَّبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا} ۵؎ کی تلوار