تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس پہاڑی کا نام ہے جہاں علاقۂ نجد میں جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیام فرمایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ کر کفار فرار ہو گئے تھے۔۳؎ غزوہ سویق نجد کے اس سفر سے واپس آ کر تقریباً تین ماہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ میں تشریف فرما رہے‘ ابوسفیان جنگ احد میں یہ کہہ کر گیا تھا کہ آئندہ سال مقام بدر میں لڑائی ہو گی‘ مسلمانوں نے اس بات کو منظور کر لیا تھا‘ مناقین مدینہ جو رات دن مسلمانوں کی بربادی کی تدبیر سوچتے رہتے تھے انہوں نے نعیم بن مسعود کو مکہ بھیجا کہ قریش کو احد کی قرار داد یاد دلائے اور جنگ کے لیے آمادہ کرے‘ نعیم نے ابوسفیان کو توجہ دلائی کہ مسلمانوں کے مقابلہ کی تیاری کرنی چاہیے‘ مکہ میں اس سال کچھ قحط اور گرانی تھی‘ ابوسفیان نے کہا کہ ہم جنگ کی تیاری میں مصروف ہیں لیکن تم یہ کام کرو کہ مدینہ جا کر ہماری عظیم الشان تیاریوں کا حال سنائو اور مسلمانوں کو ڈرائو‘ تاکہ وہ مدینہ سے نہ نکلیں اور اس سال لڑائی نہ ہو۔ اگریہ کام تم سے سرانجام پا گیا تو تم کو بیس اونٹ بطور شکریہ پیش کئے جائیں گے۔ نعیم نے مدینے میں آ کر بڑی آب تاب کے ساتھ قریش کی تیاریوں کا حال جا بجا بیان کرنا ۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۱۲۲میں بنو نضیر کو دی گئی سزا کی کچھ تفصیل موجود ہے۔ نیز دیکھیے سیرت ابن ہشام ص ۴۰۶ و ۴۰۷۔ ۲؎ بعض اہل سیر نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا نام لکھا ہے‘ مثلاً : ابن ہشام وغیرہ۔ ۳؎ سیرت ابن ہشام ص ۴۰۷۔ شروع کی‘ یہ خبر سن کر مسلمان کچھ فکر مند ہونے لگے۔ لیکن سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں پھر مسلمان ان خبروں کو سن سن کر کیوں گھبرا رہے ہیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر کوئی ایک شخص بھی میرے ہمراہ نہ چلے تو میں تنہا حسب وعدہ کفار کے مقابلہ کے لیے بدر کے میدان میں پہنچ جائوں گا۔ چنانچہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ کی تیاری کی اور بدر کے جانب روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ڈیڑھ ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا لشکر تھا۔ روانگی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا عامل مقرر فرما گئے تھے‘ اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے لشکر کا علم سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو سپرد کیا تھا‘ کل فوج میں اس مرتبہ دس گھوڑے تھے‘ ابوسفیان لڑائی سے جان بچانا اور طرح دینا چاہتا تھا مگر جب اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینہ سے روانہ ہونے کا حال معلوم ہوا تو وہ مکہ سے دو ہزار کا لشکر جرار لے کرچلا‘ خشک سالی کی وجہ سے اس لشکر کے پاس سامان اذوقہ میں سوائے ستوکے اور کچھ نہ تھا‘ اس واسطے اس لشکر کا نام جیش السویق مکہ میں مشہور ہوا۔۱؎ ابوسفیان کے لشکر میں اس مرتبہ پچاس سوار تھے‘ یہ دو ہزار کا لشکر جب مقام عسفان میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اسلامی لشکر میں ڈیڑھ ہزار جاں باز موجود ہیں‘ اہل مکہ بدر‘ احد میں دیکھ چکے تھے کہ تہائی اور چوتھائی تعداد کے مسلمانوں سے بھی ان کو شکست کھانی پڑی تھی‘ اب بھی اگرچہ مسلمان تعداد میں کم یعنی صرف تین چوتھائی تھے مگر اس تعداد کا حال معلوم ہو کر کفار کے اوسان خطا ہو گئے اور مقام عسفان ہی سے یہ کہہ