تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے نکل کر یک لخت مسلمانوں پر حملہ کر دیا‘ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اور چند ہمراہی اپنی جگہ موجود تھے لیکن وہ اس دستہ کو روک نہ سکے کیونکہ ان کے ماتحت قریباً تمام تیر انداز پہلے ہی اس مقام سے جا چکے تھے سیدنا عبداللہ ۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۰۴۳۔ ۲؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۰۴۳۔ بن جبیر رضی اللہ عنہ اسی جگہ شہید ہو گئے اس اچانک حملہ نے جو بالکل غیر متوقع طور پر ہوا اور تیر اندازوں کے جگہ چھوڑ دینے کی وجہ سے ہوا مسلمانوں میں کچھ پریشانی سی پیدا کر دی جس کی وجہ سے لوگوں نے کفار کا تعاقب چھوڑدیا‘ مسلمانوں کو اس حالت میں دیکھ کر عکرمہ بن ابوجہل نے بھی دوسری طرف سے اپنے سواروں کا دھاوا بول دیا‘ ساتھ ہی ابوسفیان جو میدان چھوڑ کر فرار ہو چکے تھے اپنے آدمیوں کو سمیٹ کر اور سب بھاگتے ہوئوں کوروک کر لوٹے اور لشکر کفار نئے جوش اور نئی ہمت کے ساتھ حملہ آور ہوا‘ مسلمانوں پر تمام حملے یکے بعد دیگرے اور اچانک طور پر ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لڑائی کا رنگ بدل گیا‘ مسلمان ہر طرف سے کفار کے نرغے میں آگئے اور ان کی جمعیت میں انتشار و سراسیمگی پیدا ہو گئی‘ میدان جنگ کی یہ صورت ہو گئی کہ جا بجا تھوڑے تھوڑے مسلمان بہت بہت کافروں کے غول میں گھر گئے۔ ایک دوسرے کو خبر نہ رہی اور ہر طرف سے ان پر تلواریں برسنے لگیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی صرف بارہ صحابہ رضی اللہ عنھم کے ساتھ کفار کے ایک نرغے میں آگئے‘ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ علم لیے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب ہی استادہ تھے‘ کفار کے ایک مشہور شہسوار ابن قمیئہ لیثی نے حملہ کیا اور سیدنا مصعب بن عمیر کو شہید کر دیا‘ سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہم شبیہ تھے‘ اس لیے اس نے سمجھا محمد صلی اللہ علیہ و سلم شہید ہو گئے‘ ابن قمیئہ نے ایک بلند مقام پر چڑھ کر بلند آواز سے کہا کہ قدقتلتمحمدا۱؎ اس آواز سے مشرکوں کے دل بڑھ گئے اور وہ خوشی سے اچھلنے لگے‘ مسلمان اس آواز کو سن کر اپنی اپنی جگہ حیران و شددر رہ گئے۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا تو بلند آواز سے کہا کہ مسلمانو! خوش ہو جائو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زندہ و سلامت موجود ہیں‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلند آواز سے فرمایا الی عباداللہ انا رسول اللہ(اللہ تعالیٰ کے بندو میری طرف آئو میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں) یہ آواز سن کر مسلمان ہر طرف سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف آنے شروع ہوئے‘ کفار سے لڑتے ان کے حملوں کو روکتے اور ان کو مارتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب پہنچے‘ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس آواز نے کفار کو بھی بتا دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کس جگہ تشریف فرما ہیں‘ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی سب اسی طرف متوجہ ہو گئے اور وہ مقام جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف رکھتے تھے لڑائی کا مرکز بن گیا۔۔۔ کچھ لوگ مسلمانوں کی فوج کے ایسی حالت اور ایسے مقامات پر تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک نہ پہنچ سکے اور ادھر ادھر منتشر ہو گئے‘ اس پریشانی اور کار زار کے عالم میں عبداللہ بن شہاب زہری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وار کیا جس سے چہرہ مبارک زخمی