تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی تمام کیفیت سنا دی‘ عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا میں مسلمان ہوتا ہوں اور اقرار کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے سچے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں‘ کیونکہ اس بات کی خبر سوائے صفوان اورمیرے کسی تیرے شخص کو ہرگز ہرگز نہ تھی۔۱؎ جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کی‘ فرشتوں کے شریک جنگ ہونے کا حال خود کفار نے مکہ میں جا کر بیان کیا‘ بعض مشرکین اطراف مدینہ جو لڑائی کا تماشا دیکھنے چلے گئے تھے یا اتفاقاً لڑائی کے روز بدر میں موجود اور قریب کی پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تماشا دیکھ رہے تھے ان کا بیان ہے کہ ہم نے لڑائی کے وقت اپنے سروں کے اوپر سے ایک بادل کے ٹکڑے کو گذرتے ہوئے اورمقام جنگ کی طرف جاتے ہوئے دیکھا‘ اس بادل کے ٹکڑے میں سے جب کہ وہ بالکل ہمارے قریب سے گذر رہا تھا‘ گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنائی دی اور کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جلد آگے بڑھو‘ راوی کہتا ہے کہ اس آواز کے سننے سے ہم پر اس قدر خوف طاری ہوا کہ میرے چچا زاد بھائی کا خوف کے مارے دم نکل گیا۔۲؎ جنگ بدر سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ۲۲ رمضان المبارک کو مدینہ میں واپس تشریف لائے‘ اسی رمضان کی آخری تاریخوں میں صدقہ فطر واجب ہوا‘ عیدین کی نمازیں اور قربانی بھی اسی سال مقرر ہوئی‘۳؎ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دوسری صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنھا کا نکاح سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کیا اور وہ ذی النورین کہلائے‘ اسی سال جنگ بدر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی چھوٹی صاحبزادی سیدنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ کا نکاح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کیا۔۴؎ ۱؎ سیرت ابن ہشام‘ ص ۳۲۴‘ ۳۲۵۔ ۲؎ صحیحمسلمکتابالجھادوالسیربابالامدادبالملئکۃفیغزوۃبدر۔ ۳؎ صحیحبخاریکتابالعیدین۔صحیحمسلمکتابالعیدین ۴؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۰۰۳۔صحیحمسلمکتابالاشربہبابتحریمالخمر کفار مکہ کے دلوں میں انتقام کی آگ خوب تیزی سے شعلہ زن تھی‘ جنگ بدر کے دو مہینے بعد ابوسفیان دو سو سوار لے کر مکہ سے بارادئہ جنگ روانہ ہوا‘ جب مدینہ کے قریب یہ لشکر پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی خبر ہو گی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کو ہمراہ لے کر مقابلہ کے لیے نکلے‘ ابوسفیان کھجوروں کے باغ کو جلا کر جا چکا تھا اور اس نے دو شخصوں کو جو اپنی کاشت کاری کے کاموں میں وہاں مصروف تھے قتل کردیا تھا۔ ان دونوں میں ایک تو سیدنا سعید بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ تھے اور دوسرا ان کا حلیف تھا‘ مسلمانوں کے آنے کی خبر سنتے ہی لشکر کفار بھاگ پڑا اور تاب مقادمت نہ لا سکا‘ بھاگتے ہوئے کفار مکہ اپنے ستوئوں کے تھیلے ہلکے کرنے کے لیے راستے میں پھنکتے گئے‘ مسلمانوں نے مقام کدر تک تعاقب کیا اور جا بجا ستوئوں کے تھیلے پڑے ہوئے پائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ میں واپس تشریف لے آئے اور اس واقعہ کا نام غزوہ