تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نماز جمعہ ادا فرما کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اونٹنی پر سوار ہو گئے قبیلہ بنو سالم بن عوف کے لوگوں نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی کی مہار پکڑ لی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے یہاں ٹھہرانا چاہا‘ دوسرے قبیلوں اور دوسرے محلوں کے لوگوں نے اپنے یہاں لے جانے کا اصرار کیا اور اس طرح بحث و تکرار شروع ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میری ناقہ کو نہ روکو‘ اس کی مہار چھوڑ دو‘ اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم مل چکا ہے‘ جہاں میری ناقہ بیٹھ جائے گی میں وہیں ٹھہروں گا‘ چنانچہ ناقہ چلنے لگی‘ تمام انصار و مہاجرین ناقہ کے آگے پیچھے دائیں بائیں ساتھ ساتھ چلے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مہار بالکل ڈھیلی چھوڑ دی اور ناقہ اپنی خوشی سے آہستہ آہستہ چلتی رہی‘ سب کی نگاہیں ناقہ کی طرف تھیں کہ دیکھیں یہ کہاں بیٹھتی ہے‘ چلتے چلتے ناقہ جب قبیلہ بنو بیاضہ کے محلہ میں پہنچی تو اس قبیلہ کے سردار زیاد بن لبید اور عروہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر ناقہ کی مہار پکڑنی چاہی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: دعوھا فانھا مامورۃ ’’اسے چھوڑ دو اس کو حکم ملا ہے۔‘‘ اس کے بعد ناقہ بنو ساعدہ کے محلہ میں پہنچی‘ قبیلہ بنو ساعدہ کے سردار سعد بن عبادہ اور منذر بن عمرو نے روکنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہی الفاظ فرمائے کہ دعوھا فانھا مامورۃ اس کے بعد اونٹنی قبیلہ بنو الحارث بن الخزرج کے محلہ میں پہنچی‘ یہاں سعد بن الربیع‘ خارجہ بن زید‘ عبداللہ بن رواحہ نے روکنا چاہا‘ ان کو بھی وہی حکم ملا‘ وہاں سے روانہ ہو کر ناقہ بنو عدی بن النجار کے محلہ میں پہنچی‘ ان لوگوں میں چونکہ عبدالمطلب کی ننھیال تھی اس لیے ان کو بڑا دعویٰ تھا کہ عبدالمطلب کی ماں سلمیٰ بنت عمرو ہمارے قبیلہ کی لڑکی تھی لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم میں قیام فرمائیں گے‘ چنانچہ سلیط بن قیس رضی اللہ عنہ اور اسیرۃ بن ابی خارجہ رضی اللہ عنہ سردار بنو عدی نے آگے بڑھ کر ناقہ کی مہار پکڑی ‘ ان کو بھی وہی جواب ملا کہ ناقہ کا راستہ چھوڑ دو اس کو اللہ تعالیٰ کا حکم ملا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ ناقہ بنو مالک بن النجار کے محلہ میں جا کر ایک غیر آباد افتادہ زمین میں بیٹھ گئی اورفوراً پھر کھڑی ہو گئی‘ کھڑی ہو کر پھر کچھ دور تک چلی‘ چل کر خود بخود پھر لوٹی اور ٹھیک اسی جگہ جہاں پہلے بیٹھی تھی واپس آئی اور بیٹھ گئی‘ اب کی مرتبہ اونٹنی نے بیٹھ کر جھرجھری لی‘ گردن نیچے ڈال دی‘ اور دم ہلانے لگی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس پر سے اتر آئے۔ اس افتادہ زمین کے قریب سیدنا ابو ایوب خالد بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کا مکان تھا‘ وہ خوشی خوشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسباب اٹھا کر اپنے مکان میں لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں کے یہاں قیام فرمایا‘ یہ افتادہ زمین سہل و سہیل دو یتیم لڑکوں کی ملکیت تھی‘ جس میں چند درخت کھجور کے کھڑے تھے‘ اور چند قبریں مشرکین کی تھیں اور چار پایوں کا ایک ریوڑ بھی اس جگہ آ کر بیٹھا کرتا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ یہ جگہ کس کی ملکیت ہے‘ معاذ بن عفراء نے عرض کیا کہ میرے رشتہ دار دو یتیم لڑکے اس زمین کے مالک ہیں اور میرے ہی پاس پرورش پا رہے ہیں‘ میں ان کو رضا مند کر لوں گا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہاں شوق