تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور چل دیا‘ اس کو توقع تھی کہ میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو گرفتار یا قتل کر کے سو اونٹ انعام میں حاصل کر سکوں گا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رفقاء کے اونٹ سامنے نظر آنے لگے تو اس کے گھوڑے نے پھر ٹھوکر کھائی‘ سراقہ پشت زین سے زمین پر گرا اور اٹھ کر پھر سوار ہوا اور چلا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سواری کے بالکل قریب پہنچ کر اس کا گھوڑے کے پائوں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور سراقہ پھر زمین پر آ رہا‘ یہ حالت دیکھ کر وہ خوف زدہ ہوا اور سمجھا کہ میں ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا‘ چنانچہ اس نے خود آواز دے کر آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ذرا ٹھہرنے اور ایک بات سن لینے کی درخواست کی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سواری کو روک دیا‘ سراقہ نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو گرفتار کرنے آیا تھا لیکن اب میں واپس جاتا ہوں‘ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے معافی مانگتا ہوں‘ مجھ کو ایک امان نامہ لکھ دیجئے اور معاف کر دیجئے میں واپسی میں دوسرے لوگوں کو بھی جو میرے پیچھے اسی غرض سے آ رہے ہوں گے واپس لے جائوں گا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یا ان کے خادم عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ نے اونٹ پر بیٹھے ہی بیٹھے ایک تحریر لکھ کر اس کی طرف ڈال دی‘ اور وہ اس تحریر کو لے کر واپس روانہ ہوا‘ راستہ میں اس کو اور بھی لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے تعاقب میں آتے ہوئے ملے‘ وہ سب کو یہ کہہ کر کہ اس طرف کہیں سراغ نہیں ملا واپس لے گیا۔۱؎ سراقہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہو گیا اور اسی تحریر کو اس نے فتح مکہ کے روز اپنے لئے دستاویز امان بنایا۔۲؎ غار ثور یعنی نشیبی مکہ سے روانہ ہو کر عبداللہ بن اریقط آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ساحل سمندر کی جانب لے کر چلا‘ مقام عسفان سے ادھر تھوڑی دور عام راستہ طے کر کے مقام امج کے زیریں جانب مقام قدید تک سفر کرتا رہا‘ پھر شارع عام کو کاٹ کر خرار کے میدان میں قطع مسافت کرتا رہا‘ ثنیتہ المرہ‘ لقف‘ مدلجہ‘ مجاج وغیرہ مقامات میں ہوتا ہوا ذوالغضوین کے علاقہ کو طے کر کے ذی سلم کے صحرا میں ہوتا ہوا العبابید‘ العرج کے مقامات سے گذرا‘ العرج کی نشیبی وادی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس قافلہ کا ایک اونٹ چلتے چلتے تھک گیا‘ وہاں قبیلہ اسلم کے ایک شخص اوس بن حجر سے ایک اونٹ لیا‘ اوس بن حجر نے اپنا ایک غلام بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کر دیا‘ وہاں سے یہ قافلہ ثنیہ العائر کا راستہ طے کرتا ہوا وادی ریم میں پہنچا‘ وادی ریم سے چل کر دوپہر کے وقت قبا کے قریب پہنچ گئے۔۳؎ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ شام کے سفر سے تجارتی قافلہ لئے ہوئے مکہ کو واپس آتے ہوئے راستہ میں ملے‘ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں کپڑے یعنی لباس پیش کیا کہ میں بھی مکہ پہنچ کر جلد مدینہ پہنچتا ہوں۔ اس سفر میں جہاں جہاں لوگ ملتے تھے‘ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پہچان لیتے تھے کیونکہ ۱؎ صحیحبخاری۔کتابمناقبالانصارحدیث۳۹۰۶۔صحیحمسلم۔کتابالزھدبابحدیث