تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے القصوا پر سوار ہو کر روانگی سے پیشتر مکہ کی طرف دیکھا اور حسرت کے ساتھ فرمایا: کہ مکہ! تو مجھے تمام شہروں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے رہنے والوں نے مجھے یہاں رہنے نہیں دیا‘ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نکالا ہے اب یہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے‘ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی‘ {اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ} ۳؎اس جگہ غور کرنے کا مقام ہے کہ اب تک جس قدر مسلمان ہوئے ہیں وہ کن حالات میں اور کس طرح اسلام کی صداقت سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے‘ ان کو کیسی کیسی اذیتیں ۱؎ ایضاً ۲؎ سیرت ابن ہشام‘ ص ۲۴۴۔ ۳؎ ’’جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے‘ ان کو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں) کیوں کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے اور اللہ (ان کی مدد کرے گا‘ وہ) یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔‘‘ (الحج : ۲۲/۳۹) … جامعترمذی۔ابوابتفسیرالقرآنبابمنسورۃالحجعنابنعباس رضی اللہ عنہ ۔ برداشت کرنی پڑی ہیں اور مسلمان ہو کر انہوں نے کیسی روح فرسا اور کوہ شکن مصیبتوں کا مقابلہ کیا ہے‘ کیا مسلمانوں کی نسبت یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ یہ لالچ یا خوف کے ذریعہ مسلمان کئے گئے تھے؟ نہیں ہرگز نہیں‘ اب اس آیت کے نازل ہونے کے بعد وہ زمانہ شروع ہوتا ہے جب کہ شریروں اور کلمہ حق کی اشاعت کو روکنے کے لئے قتل و غارت سے باز نہ آنے والوں کو سزا دینے اور اشاعت حق کی راہ سے رکاوٹ کے دور کرنے کی اجازت مل گئی ہے‘ اب آئندہ بھی غور کرتے جائو اور اس بات کو ذہن نشیں رکھو کہ کس کس طرح لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ مختصر قافلہ رات کے پہلے ہی حصہ میں روانہ ہو گیا اور اگلے دن یکم ربیع الاول ۱۴ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی سہ پہر تک سرگرم سفر رہا‘ سہ پہر کے قریب خیمہ ام معبد پر پہنچے‘ یہ بوڑھی عورت قوم خزاعہ سے تھی اور مسافروں کو پانی وغیرہ پلا دیتی تھی‘ یہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بکری کا دودھ پی کر اور تھوڑی دیر آرام فرما کر پھر روانگی کا حکم دیا‘ یہاں سے تھوڑی ہی دور چلے ہوں گے کہ پیچھے سے سراقہ بن مالک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا تعاقب کرتا ہوا آ پہنچا۔ سراقہ بن مالک بن حعشم ایک مشہور بہادر اور جنگ جو شخص تھا‘ سراقہ کا قصہ اس طرح ہے کہ سراقہ چند شخصوں کے ساتھ اپنے گائوں کی مجلس بیٹھا تھا‘ علی الصبح کسی شخص نے مجمع میں آ کر کہا کہ میں نے تین شتر سواروں کو جاتے ہوئے دیکھا ہے‘ وہ فلاں سمت کو جا رہے تھے‘ میرا خیال ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے رفقاء تھے۔ سراقہ نے یہ سنتے ہی اس شخص کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ میں جانتا ہوں وہ تو فلاں فلاں شخص ہیں مدعا سراقہ کا یہ تھا کہ انہیں میں گرفتار کروں اور کوئی دوسرا شخص ان لوگوں میں سے نہ اٹھ کھڑا ہو ورنہ سو اونٹ کا انعام مجھ کو نہ مل سکے گا‘ تھوڑی دیر بعد سراقہ اٹھا اور اپنے گھر آیا‘ گھوڑا اور ہتھیار چپکے سے شہر کے باہر بھجوا دئیے اور خود بھی لوگوں کی نگاہ سے بچتا ہوا باہر پہنچا‘ مسلح ہو کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اونٹوں کے نقش قدم پر نہایت تیز رفتاری سے روانہ ہوا‘ چند ہی قدم چلنے پایا تھا کہ گھوڑے نے سکندری کھائی اور سراقہ نیچے گر پڑا‘ پھر سوار ہوا