تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ٹھہرا لی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے مکان سے نکل کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکان پر تشریف لائے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے منتظر تھے اسی وقت دونوں روانہ ہو گئے اور مکہ کی نشیبی سمت چار میل کے فاصلہ پر کوہ ثور کے ایک غار میں جو غار ثور کے نام سے مشہور ہے چھپ کر بیٹھے رہے۔۲؎ ادھر مکہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ رات بھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بستر پر استراحت فرماتے رہے‘ کفار مکہ بھی رات بھر مکان کا محاصرہ کئے ہوئے کھڑے رہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بستر پر سوتا ہوا دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا گمان کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اٹھ کر باہر تشریف لانے کا انتظار کرتے رہے‘ جب نماز فجر کے لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ خواب سے بیدار ہو کر اٹھے تو کفار نے پوچھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کہاں ہیں؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ کو کیا خبر‘ خبر تو تم کو ہونی چاہیے کہ تم پہرے پر تھے میں تو رات بھر سوتا رہا ہوں‘ کفار نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پکڑ لیا‘ ان کو مارا اور تھوڑی دیر تک گرفتار رکھا پھر چھوڑ دیا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اطمینان سے تمام امانتیں ان کے مالکوں کو پہنچائیں۔ اس جگہ یہ بات خاص طور پر توجہ کے قابل ہے کہ کفار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جان کے در پے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دیانت و امانت پر ان کو اس قدر اعتماد تھا کہ اپنی قیمتی چیزیں‘ زیورات‘ چاندی‘ سونا سب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے پاس امانت رکھ جاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ سے رخصت ہوتے وقت بھی اپنی امانت داری کو اس احتیاط سے ملحوظ رکھا کہ اپنے چچا زاد بھائی کو جو بیٹے کی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے پاس ۱؎ ’’(اور اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم ! اس وقت کو یاد کرو) جب کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کر دیں یا جان سے مار دیں یا (وطن سے) نکال دیں تو (ادھر تو) وہ چال چل رہے تھے اور (ادھر) اللہ تعالیٰ چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔‘‘ (الانفال : ۸/۳۰) ۲؎ رحمۃ للعالمین ۱/۱۲۷۔ رہتے تھے صرف اس لئے چھوڑ گئے کہ امانتیں ان کے مالکوں کے پاس بہ احتیاط تمام پہنچ جائیں۔ کفار‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر سیدھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے دروازے پر آواز دی‘ سیدنا اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ باہر نکلیں‘ ابوجہل نے پوچھا‘ لڑکی تیرا باپ کہا ہے؟ بولیں مجھے خبر نہیں یہ سن کر اس نے اس زور سے طمانچہ مارا کہ ان کے کان کی بالی نیچے گر گئی‘ اسکے بعد کفار تمام مکہ اور اس کے اطراف میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تلاش و جستجو میں دوڑے دوڑے پھرنے لگے‘ کہیں کوئی پتہ نہ چلا بالآخر انہوں نے اعلان کیا کہ جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو زندہ یا مردہ گرفتار کر کے لائے گا اس کو سو اونٹ انعام دئیے جائیں گے‘ اس انعامی اشتہار کو سن کر بہت سے لوگ مکہ کے چاروں طرف دور دور تک نکل پڑے۔۱؎ رات کی تاریکی میں دونوں محب و محبوب غار ثور کے قریب پہنچ گئے تو آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کو باہر چھوڑ کر پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غار میں