تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے خالی ہوتے ہیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے‘ چونکہ خلاف معمول دوپہر کے وقت تشریف لے گئے‘ لہذا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو فوراً شبہہ ہوا کہ ضرور ہجرت کا حکم نازل ہو گیا ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اول یہ دریافت فرمایا کہ گھر میں کوئی غیر آدمی تو نہیں ہے‘ جب اطمینان ہوا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کی دونوں بیٹیوں اسماء رضی اللہ عنھا اور عائشہ رضی اللہ عنھا کے سوا اور کوئی نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یثرب (مدینہ) کی طرف ہجرت کا حکم نازل ہو گیا۔ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ رفیق سفر کون ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ تم میرے رفیق سفر ہو گے‘ یہ سن کر جوش مسرت سے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے‘ انہوں نے فرمایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میں نے دو اونٹنیاں پہلے ہی سے خرید کر اور خوب کھلا پلا کر موٹی تازی کر رکھی ہیں‘ ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نذر کرتا ہوں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں اس اونٹنی کو قیمتاً لوں گا‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی قیمت ادا فرمائی اور سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو وہ قیمت لینی پڑی‘ اسی وقت سے ہجرت کی تیاری شروع ہو گئی‘ سیدنا اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنھا نے ستو کے تھیلے اور کھانے وغیرہ کا سامان درست کیا‘ ۲؎ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی عمر اس وقت چھوٹی تھی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی وقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اطلاع دے کر اپنے مکان پر واپس تشریف لے آئے‘ اب جو آنے والی رات تھی اسی رات میں مشرکوں کا ارادہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو گذشتہ شب کی قرار داد کے موافق قتل کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے رات سنسان ہوتے ہی آ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مکان کا محاصرہ کر لیا اور اس انتظار میں رہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کے وقت نماز پڑھنے کے ارادے سے باہر نکلیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر یک لخت حملہ آور ہوں گے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وحی الٰہی کے موافق سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر سلا دیا اور اپنی چادر ان پر ڈال دی‘ امانتیں جو اہل مکہ کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھیں وہ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۲۳۵ تا ۲۳۷۔ ۲؎ صحیحبخاری۔کتابمناقبالانصارحدیث۳۹۰۵۔سیرتابنہشامص۲۴۲۔ سپرد کر کے سمجھا دیا‘ کہ صبح اٹھ کر یہ امانتیں ان کے مالکوں کے پاس پہنچا دینا‘ اس کے بعد تم بھی مدینہ کی طرف آ جانا‘ یہ سب کام کر کے رات کی تاریکی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم گھر سے نکلے‘ اول آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورہ یٰسین کی ابتدائی آیات {فَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ} پڑھ کر ایک مٹھی خاک پر دم کر کے ان کفار کی طرف پھینک دی اور صاف نکلے ہوئے چلے آئے‘ کفار میں سے کسی کو بھی نظر نہ آئے۔ {وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ}۱؎ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دونوں اونٹنیاں عبداللہ بن اریقط کو جو کافر مگر بھروسہ کا آدمی تھا سپرد کر دی تھیں اور معقول اجرت بھی مدینہ بھر کی رہبری کے لئے