تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بن مالک رضی اللہ عنہ (۱۰) عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ (۱۱) سعد بن خیثمہ رضی اللہ عنہ (۱۲) منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ ان بارہ سرداروں میں نو آدمی قبیلہ خزرج کے تھے‘ اور تین قبیلہ اوس کے‘ ان بارہ آدمیوں سے مخاطب ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حواری ذمہ دار تھے اسی طرح میں تم کو تمہاری قوم کی تعلیم کا ذمہ دار بناتا ہوں اور میں تم سب کا ذمہ دار ہوں‘۱؎ جس وقت عقبہ کی گھاٹی میں یہ بیعت ہو رہی تھی‘ اس وقت پہاڑ کی چوٹی پر سے ایک شیطان نے اہل مکہ کو زور سے آواز دی اور کہا کہ دیکھو محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور اس کی جماعت کے آدمی تمہارے خلاف مشورے کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور مومنوں کی اس جماعت نے اس طرف کوئی التفات نہیں کیا‘ جب تمام مراتب و معاملات طے ہو چکے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ کی طرف تشریف لے جانے کی تاریخ کا تعین اذن الہی پر موقوف رکھا‘ اس کے بعد ایک ایک دو دو کر کے سب آدمی خاموشی کے ساتھ وہاں سے نکل گئے تاکہ اس جلسہ کا حال کسی کو معلوم نہ ہو‘ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ دونوں مکہ میں چلے آئے‘ مگر صبح ہوتے ہی قریش کورات کے اس اجتماع کا حال معلوم ہوا‘ وہ اسی وقت مدینہ والوں کی قیام گاہ پر ۱؎ سیرت ابن ہشام‘ ص ۲۱۵ تا ۲۲۰۔ پہنچے اور دریافت کیا کہ رات تم لوگوں کے پاس محمد صلی اللہ علیہ و سلم آئے تھے‘ ۱؎مدینہ والوں میں جو لوگ غیر مسلم یعنی بت پرست تھے ان کو خود رات کے اس اجتماع کا حال معلوم نہ تھا‘ انہیں میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا‘ جو بعد میں منافقوں کا سردار بنا۔ اس نے قریش سے کہا بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مدینہ والے کوئی اہم معاملہ کریں اور مجھ کو اس کی اطلاع نہ ہو ۔۔۔۔۔۔ قریش کا شک جاتا رہا اور وہ واپس چلے گئے۔ اسی وقت اہل مدینہ نے کوچ کی تیاری کر دی اور وہاں سے روانہ ہو گئے۔ قریش کو مکہ میں آ کر پھر کسی دوسرے معتبر ذریعہ سے رات کی اس مجلس کا حال معلوم ہوا اور مسلح ہو کر دوبارہ آئے‘ لیکن قافلہ روانہ ہو چکا تھا‘ صرف سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ اور منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ کو کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے‘ منذر رضی اللہ عنہ تو قریش کو دیکھ کر چل دئیے اور ان کے ہاتھ نہ آئے‘ لیکن سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ رضی اللہ عنہ قریش کے ہاتھ میں گرفتار ہو گئے‘ قریش ان کو مارتے ہوئے مکہ میں لائے۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب قریش مجھے مکہ میں لا کر زدوکوب کر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ ایک سرخ و سفید رنگت کا خوبصورت شخص میری طرف آ رہا ہے‘ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر کسی شخص سے اس قوم میں مجھ کو بھلائی کی توقع ہو سکتی ہے تو وہ یہی ہو گا‘ مگر جب وہ میرے پاس آیا تو اس نے نہایت زور سے میرے منہ پر طمانچہ مارا‘ اس وقت مجھ کو یقین ہوا کہ ان لوگوں میں کوئی بھی نہیں ہے جس سے مروت و رعایت کی توقع ہو سکے‘ ۔۔۔۔۔ اتنے میںایک اور شخص آیا اس نے کہا قریش کے کسی شخص سے تیری شناسائی ہے؟ میں نے کہا جبیر بن مطعم اور حارث بن امیہ کو جو عبدمناف کے پوتے ہیں جانتا ہوں‘ اس نے کہا کہ پھرتو انہیں دونوں کا نام لے کر کیوں نہیں پکارتا‘ مجھ کو یہ تدبیر بتا کر وہی شخص ان دونوں کے پاس گیا