تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مشرکین بھی حسب دستور قدیم حج کے لئے آئے تھے‘ ان لوگوں نے مکہ سے باہر ہی ایک جگہ قیام کیا تھا‘ مگر عقبہ کی گھاٹی آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ملاقات کے لئے تجویز کر دی گئی تھی‘ اس لئے مدینہ کے مسلمان اور بعض غیر مسلم بھی جو اسلام کو پسند کرتے تھے ‘ اور مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے تھے اس گھاٹی میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے منتظر تھے‘ باقی مشرکین مدینہ کو عقبہ کی اس ملاقات کا علم نہ تھا‘ وہ سب اصل قیام گاہ پر سو رہے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عقبہ میں پہنچ کر منتظر مسلمانوں سے ملاقات کی‘ ان کی طرف سے مدینہ میں تشریف لے جانے کی خواہش سن کر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ایک مناسب اور ضروری تقریر کی ۔۔۔۔ انہوں نے فرمایا:۔ ’’مدینہ والو ! محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنے خاندان میں ہے اس کا خاندان اس کی حفاظت کرتا ہے‘ تم اس کو اپنے یہاں لے جانا چاہتے ہو‘ یہ یاد رکھو کہ تم کو اس کی حفاظت کرنی پڑے گی‘ اس کی حفاظت کوئی آسان کام نہیں‘ اگر تم عظیم الشان اور خون ریز لڑائیوں کے لئے تیار ہو تو بہتر ہے ورنہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو لے جانے کا نام نہ لو۔‘‘ براء بن معرور رضی اللہ عنہ نے کہا‘ عباس رضی اللہ عنہ ! ہم نے تمہاری بات سن لی‘ اب ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی خود اپنی زبان سے کچھ فرمائیں‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تقریر فرمائی اور قرآن مجید کی آیات پڑھ کر سنائیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریر میں حقوق اللہ اور حقوق عباد کا بیان تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان ذمہ داریوں کو بھی بیان فرمایا جو مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لے جانے سے مدینہ والوں پر عائید ہوتی تھیں‘ براء بن معرور رضی اللہ عنہ نے تمام باتیں سننے کے بعد کہا ہم ان سب باتوں کے لئے تیار ہیں‘ ابوالہثیم بن تیہان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ تو وعدہ کریں کہ ہم کو چھوڑ کر واپس تو نہیں آ جائیں گے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں میرا جینا مرنا تمہارے ہی ساتھ ہو گا‘ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بولے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم کو اس کے معاوضہ میںکیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جنت اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی‘ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا بس سودا ہو چکا‘ اب نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے قول سے پھریں نہ ہم پھریں گے‘ اس کے بعد سب نے بیعت کی‘ اس بیعت میں براء بن معرور رضی اللہ عنہ سب پر سابق تھے‘ اس بیعت کا نام بیعت عقبہ ثانیہ مشہور ہے‘ جب بیعت ہو چکی تو اسعد بن زراہ رضی اللہ عنہ نے سب کو مخاطب کر کے کہا کہ لوگو! آگاہ رہو کہ اس قول و قرار کا یہ مطلب ہے کہ ہم ساری دنیا کے مقابلہ کے لئے تیار ہیں‘ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں ہم خوب جانتے ہیں کہ ہم کو ساری دنیا کا مقابلہ کرنا پڑے گا‘ اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں میںسے بارہ بزرگوں کو منتخب فرمایا اور ان کو تبلیغ اسلام کے متعلق ہدایات دے کر اپنا نقیب مقرر کیا‘ اور ان کا کام اسلام کی تبلیغ کرنا مقرر فرمایا‘ ان نقباء کے نام یہ ہیں۔ (۱) اسعد بن زرارہ (۲) اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ (۳) ابوالہثیم بن التیہان (۴) براء بن معرور رضی اللہ عنہ ‘ (۵) عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ (۶) عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ (۷) سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ (۸) سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ (۹) رافع