تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے پیشتر خلیفہ نے پہلے ہی سے نامزد اور تجویز کیا تو یہ نامزدگی اور تعین بھی صاحب الرائے حضرات سے مشورہ لینے کے بعد عمل میں آتا تھا‘ جس میں وراثت اور خاندانی حقوق کو مطلق دخل انداز نہیں ہونے دیا جاتا تھا‘ دوسری خلافتوں میں طرز پسندیدہ نہیں پائی گئی‘ بلکہ وراثت و ولیعہدی کی نا معقول رسم جاری ہو گئی۔ خلافت راشدہ میں مسلمانوں کو معاملات حکومت اور انتظام سلطنت میں دخل دینے‘ اعتراض کرنے‘ جواب طلب کرنے‘ مشورہ دینے کا پورا پورا حق حاصل تھا‘ لیکن بعد کی خلافتوں میں یہ حق مسلمانوں کو نہیں مل سکا۔ خلافت راشدہ میں خلفاء راشدین کی حیثیت ظاہری‘ ان کا لباس‘ ان کا مکان‘ ان کی سواری‘ ان کی خوراک‘ ان کی نشست و برخاست سب عام لوگوں کی مانند ہوتی تھی‘ خلیفہ کو دوسرے لوگوں پر کوئی فوقیت حاصل نہ تھی‘ لیکن بعد کی خلافتوں میں خلیفہ کی شان شاہانہ اور دوسروں سے بہت برتر و اعلیٰ ہوتی تھی۔ خلافت راشدہ میں خلفاء اپنے اختیار سے ایک پائی بھی اپنی ذات کے لیے یا بلا استحقاق کسی اپنے عزیز و رشتہ دار کے لیے خرچ نہیں کر سکتے تھے‘ لیکن بعد کی خلافتوں میں عام طور پر خلیفہ بیت المال کا مالک سمجھا جانے لگا اور اپنے اختیار سے لوگوں کو بلا استحقاق بھی انعام و اکرام دیتا‘ اور کوئی اعتراض کی جرات نہ کر سکتا تھا۔ خلفاء راشدین سب کے سب جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں ہمیشہ رہتے تھے‘ بعد کی خلافتوں میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی قابل تذکرہ صحابی خلیفہ نہ تھا۔ خلفاء راشدین سب کے سب ان لوگوں میں سے تھے‘ جو جنتی ہونے کی بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے سن چکے تھے‘ لیکن بعد کی خلافتوں میں ایسے صحابہ نہیں پائے گئے‘ خلفاء راشدین کو مسلمانوں کی صلاح و فلاح کا خیال سب سے زیادہ تھا وہ اعلاء کلمۃ اللہ اور اجرا ء احکام شرع کے سب سے زیادہ خواہاں تھے‘ لیکن ملک گیری کا نصب العین نہ تھا۔ خلفاء راشدین ملکوں کے محاصل اور مال غنیمت کی آمدنی کو خزانہ میں ذخیرہ رکھنے کے عادی نہ تھے‘ جس قدر مال و دولت آتی وہ سب مسلمانوں کی تقسیم کر دیتے‘ یا مسلمانوں کی بہتری کے کاموں میں خرچ کر دیا کرتے تھے‘ یہاں تک کہ بیت المال کا تمام مال خرچ کر کے بیت المال میں جھاڑوں دلوا دیا کرتے تھے‘ لیکن بعد میں قائم ہونے والی خلافتوں کی حالت اس کے خلاف رہی۔ خلفاء راشدین ہمیشہ خود حج کے لیے جاتے اور وہاں عالم اسلام کے ہر حصے اور ہر گوشے سے آئے ہوئے مسلمانوں سے ملتے اور ان کی ضرورتوں اور شکایتوں سے واقف ہو کر وہاں کے عاملوں کی قابلیت اور ناقابلیت سے واقف ہوتے‘ ضروری احکام جاری کرتے اور اس طرح حج کے موقع پر عظیم الشان اجتماع سے فائدہ اٹھا کر اپنے فرائض کو پورا کرتے‘ اگر کسی ضروری کام یا مجبوری کی وجہ سے خود حج کے لیے نہ جا سکتے‘ تو اپنا قائم مقام بھیج کر ان ضرورتوں کو پورا کر لیتے تھے‘ لیکن خلافت راشدہ کے بعد حج کے اجتماع عظیم سے خلفاء نے یہ فائدہ اٹھانا ترک کر دیا۔ خلفاء راشدین دارالخلافہ میں خود ہی نمازوں کی امامت کرتے اور جمعہ کا خطبہ بیان فرماتے تھے‘ لیکن بعد میں صرف خلافت بنو امیہ میں یہ رسم باقی رہی ان کے علاوہ باقی