تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا کام کرتا ہے‘ اس نے کہا آہن گری‘ نقاشی اور بخاری‘ آپ نے فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلے میں یہ رقم زیادہ نہیں ہے‘ یہ سن کر ابو لولو اپنے دل میں سخت ناراض ہوا‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے پھر اس سے مخاطب ہو کر کہا میں نے سنا ہے تو ایسی چکی بنانا جانتا ہے کہ جو ہوا کے زور سے چلتی ہے تو مجھ کو بھی ایسی چکی بنا دے‘ اس نے جواب میں کہا کہ بہت خوب! میں ایسی چکی بنا دوں گا جس کی آواز اہل مغرب و مشرق سنیں گے۔ دوسرے دن نماز فجر کے لیے لوگ مسجد نبوی میں جمع ہوئے ‘ ابو لولو بھی ایک خنجر لیے ہوئے مسجد میں داخل ہو گیا‘ جب نماز کے لیے صفیں درست ہو گئیں‘ اور فاروق اعظم امامت کے لیے آگے بڑھ کر نماز شروع کر چکے تو ابو لولو نے جو مسلمانوں کے ساتھ صف اول میں کھڑا تھا نکل کر فاروق اعظم پر خنجر کے چھ وار کئے جن میں ایک وار ناف سے نیچے پڑا‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فوراً سیدنا عبدالرحمن بن عوف کو کھینچ کر اپنی جگہ کھڑا کر دیا اور خود زخموں کے صدمہ سے بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس حالت میں نماز پڑھائی کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ زخمی سامنے پڑھے تھے‘ ابو لولو اپنا وار کر کے مسجد نبوی سے بھاگا‘ لوگوں نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی‘ اس نے کئی شخصوں کو زخمی کیا اور کلیب بن ابی بکیر رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا‘ بالآخر گرفتار کر لیا گیا‘ لیکن اس نے گرفتار ہوتے ہی خود کشی کر لی‘ نماز فجر پڑھ لینے کے بعد لوگ فاروق اعظم کو مسجد سے اٹھا کر ان کے گھر لائے‘ انہوں نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ میرا قاتل کون تھا‘ لوگوں نے ابو لولو کا نام بتایا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو یا جس نے اللہ تعالیٰ کو ایک سجدہ بھی کیا ہو۔ ایک طبیب نے آ کر آپ کو دودھ اور نبیذ پلایا تو وہ زخم کے راستے باہر نکل آیا‘ یہ حالت دیکھ کر لوگوں کو آپ کی زندگی سے مایوسی ہوئی اور عرض کیا کہ جس طرح سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو اپنا جانشین مقرر فرما دیا تھا اسی طرح آپ بھی کسی کو اپنا جانشین مقرر فرما دیں۔ آپ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف‘ سیدنا سعد بن ابی وقاص‘ سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا‘ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں تشریف نہ رکھتے تھے‘ فاروق اعظم نے باقی پانچ آدمیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تین روز تک طلحہ کا انتظار کرنا‘ اگر وہ تین روز تک آ جائیں تو ان کو بھی اپنی جماعت میں شامل کرنا اور تین روز تک نہ آئیں تو پھر تم پانچ آدمی ہی مشورہ کر کے اپنے آپ میں سے کسی ایک کو اپنا امیر بنا لینا‘ اس کے بعد آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر کو بلا کر کہا کہ اگر لوگ خلافت و امارت کے انتخاب میں اختلاف کریں تو تم کثرت کے ساتھ شریک ہونا اور اگر فریقین برابر تعداد کے ہوں تو تم اس گروہ میں شریک ہونا جس میں عبدالرحمن بن عوف شامل ہوں۔ پھر ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ اور مقدادبن رضی اللہ عنہ الاسود کوبلا کر حکم دیا کہ جب یہ لوگ خلیفہ کے تقرر اور انتخاب کی غرض سے ایک جگہ مشورہ کے لیے جمع ہوں تو تم دونوں دروازے پر کھڑے رہنا اور کسی کو ان کے پاس نہ جانے دینا جب