تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس مرتبہ ہرمزان نے عاجز ہو کر پھر صلح کی درخواست کی اور ادائے جزیہ کی شرط پر مسلمانوں نے باقی علاقہ ہرمزان کے قبضہ میں چھوڑ کر اس سے پھر صلح کر لی‘ سیدنا حرقوص بن زہیر سعدی فاتح اہواز نے جبل اہواز پر ڈیرے ڈال کرعلاقہ اہواز کے ویران شدہ شہروں کی آبادی کا کام شروع کیا۔ اسی عرصہ میں خبریں پہنچیں کہ یزدجرد شاہ فارس نے بہت سی فوجیں جمع کر کے مسلمانوں پر پھر چڑھائی کا مصمم ارادہ کیا ہے۔ اس خبر کو سن کرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص کو لکھا کہ اس خطرے کے سدباب کے لیے مختلف سمتوں اور مختلف راستوں پر اسلامی دستے متعین کر دو‘ چنانچہ سیدنا سعد نے ایک دستہ احتیاطاً ہرمزان کے مقابل رام ہرمز کی جانب بھی متعین کیا‘ کیوں کہ ہرمزان یزدجرد کے احکام کی تعمیل اور اس کے عزائم کو کامیاب بنانے کی تدابیر میں مصروف تھا‘ اس دستہ فوج کے مقابلہ پر ہرمزان فوج لے کر میدان میں نکلا‘ لڑائی ہوئی‘ ہرمزان کو شکست فاش حاصل ہوئی اور مسلمانوں نے رام ہرمز پر قبضہ کر لیا‘ ہرمزان شکست خوردہ فرار ہو کر مقام تستر میں پہنچ کر مسلمانوں کے خلاف فوجیں جمع کرنے لگا تستر کے قلعہ کی مرمت بھی کرا لی‘ چاروں طرف خندق کو بھی درست کرلیا اور برجوں کی پورے طور پر مضبوطی کر لی‘ ایرانی فوجیں بھی تستر میں اس کے پاس آ آ کر جمع ہونے لگیں‘ ان حالات سے مطلع ہو کر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو بصرہ کی افواج کا سردار بنا کر بھیجا۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے تستر کی جانب حرکت کے قریب پہنچ کر لڑائیوں کا سلسلہ جاری کیا‘ ہرمزان نے اول کئی معرکے میدان میں کئے‘ پھر تستر میں محصور ہو کر مدافعت میں مستعد ہوا‘ بہت سی لڑائیوں اور حملہ آوریوں کے بعد شہر تستر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا‘ ہرمزان نے تشتر کے قلعہ میں پناہ لی‘ قریب تھا کہ قلعہ پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو جائے کہ ہرمزان نے ابوموسیٰ کی خدمت میں یہ درخواست بھیجی کہ میں اپنے آپ کو اس شرط پر تمہارے سپرد کرتا ہوں کہ مجھ کو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دیا جائے اور میرے معاملہ کو انہیں کے فیصلہ پر چھوڑ دیا جائے‘ ابو موسیٰ نے اس شرط کو منظور کر لیا‘ چنانچہ ہرمزان کو انس بن مالک اور احنف بن قیس وغیرہ کی ایک سفارت کے ہمراہ مدینہ منورہ کی جانب روانہ کیا گیا۔ مدینہ منورہ کے قریب پہنچ کر ہرمزان نے مرصع تاج سر پر رکھا اور زرق برق لباس پہنا‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جب ایسے بڑے سردار کو اس طرح گرفتار دیکھا تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا‘ ہرمزان سے پوچھا تم نے کئی مرتبہ بد عہدی کی ہے‘ اس کی سزا میں تمہارے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا جائے اور بتائو کہ تم اپنی براء ت اور معذرت میں کیا کہنا چاہتے ہو؟۔ ہرمزان نے کہا مجھے خوف ہے کہ کہیں تم میری طرف سے معذرت سنے بغیر ہی مجھ کو قتل نہ کر دو‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں تم خوف نہ کرو‘ تمہاری معذرت ضرور سنی جائے گی‘ پھر ہرمزان نے پانی مانگا‘ پانی آیا تو ہرمزان نے پیالہ ہاتھ میں لے کر کہا‘ مجھے خوف معلوم ہوتا ہے کہ کہیں تم مجھ کو پانی پینے کی حالت میں قتل نہ کر دو‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا‘ تم مطلق خوف نہ کرو جب تک پانی نہ پی لو گے اس وقت تک تم کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے گا‘ ہرمزان نے یہ سنتے ہی پیالہ ہاتھ سے رکھ دیا اور کہا کہ میں پانی نہیں پیتا اور اس شرط کے موافق اب تم مجھ کو قتل نہیں کر سکتے‘ کیوں کہ تم نے مجھ کو امان دے دی ہے