تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رضی اللہ عنہ اس شان و شوکت والے دربار میں داخل ہوئے اور گھوڑے کو ایک گائو تکیے سے جو لب فرش پڑا ہوا تھا باندھ کر تیر کی آنی ٹیکتے اور اس فرش کو چاک و سوراخ دار بناتے ہوئے تخت کی طرف بڑھے اور بڑھ کر رستم کے برابر جا بیٹھے‘ لوگوں نے ربعی کو تخت سے نیچے اتارنا اور ان کے ہتھیاروں کو علیحدہ کرنا چاہا‘ تو سیدنا ربعی نے جواب دیا کہ میں تمہارے یہاں تمہارا بلایا ہوا آیا ہوں‘ خود اپنی کوئی استدعا لے کر نہیں آیا‘ ہمارے مذہب میں اس کی سخت ممانعت ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ بن کر بیٹھے اور باقی آدمی بندوں کی طرح ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے کھڑے ہوں۔ رستم نے اپنے آدمیوں کو خود منع کر دیا کہ کوئی شخص اس کے حال سے معترض نہ ہو مگر کچھ سوچ کر سیدنا ربعی خود رستم کے پاس سے اٹھے اور تخت سے اتر کر خنجر سے زمین پر بچھے ہوئے قالین اور فرش کو چاک کر کے نیچے سے خالی زمین نکال کر اس پر بیٹھ گئے اور رستم سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم کو تمہارے اس پر تکلف فرق کی بھی ضرورت نہیں ہمارے لیے خدائے تعالیٰ کا بچھایا ہوا فرش یعنی زمین کافی ہے‘ اس کے بعد رستم نے ترجمان کے ذریعہ سیدنا ربعی سے سوال کیا کہ اس جنگ و پیکار سے تمہارا مقصد کیا ہے؟ سیدنا ربعی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم خدائے تعالیٰ کے بندوں کو دنیا کی تنگی سے دار آخرت کی وسعت میں لانا‘ ظلم اور مذاہب باطلہ کی جگہ عدل اور اسلام کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں‘ جو شخص عدل اور اسلام پر قائم ہو جائے گا ہم اس سے اور اس کے ملک و اموال سے متعرض نہ ہوں گے‘ جو شخص ہمارے راستے میں حائل ہو گا ہم اس سے لڑیں گے یہاں تک کہ جنت میں پہنچ جائیں گے یا فتح مند ہوں گے‘ اگر تم جزیہ دینا منظور کرو گے تو ہم اس کو قبول کر لیں گے اور تم سے متعرض نہ ہوں گے اور جب کبھی تم کو ہماری ضرورت ہو گی تمہاری مدد کو موجود ہوں گے‘ اور تمہارے جان و مال کی حفاظت کریں گے۔ یہ باتیں سن کر رستم نے سوال کیا کہ کیا تم مسلمانوں کے سردار ہو؟ سیدنا ربعی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ نہیں میں ایک معمولی سپاہی ہوں‘ لیکن ہم میں ہر ایک شخص خواہ وہ ادنیٰ ہو اعلیٰ کی طرف سے اجازت دے سکتا اور ہر متنفس ہر معاملہ میں پورا اختیار رکھتا ہے‘ یہ سن کر رستم اور اس کے درباری دنگ رہ گئے‘ پھر رستم نے کہا کہ تمہاری تلوار کا نیام بہت بوسیدہ ہے‘ سیدنا ربعی رضی اللہ عنہ نے فوراً تلوار نیام سے کھینچ کر کہا کہ اس پر آب ابھی رکھائی گئی ہے‘ پھر رستم نے کہا تمہارے نیزے کا پھل بہت چھوٹا ہے‘ یہ لڑائی میں کیا کام دیتا ہوگا‘ سیدنا ربعی نے فرمایا کہ یہ پھل سیدھا دشمن کے سینے کو چھیدتا ہوا پار ہو جاتا ہے‘ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آگ کی چھوٹی سی چنگاری تمام شہر کو جلا ڈالنے کے لیے کافی ہوتی ہے‘ اسی قسم کی نوک جھوک کی باتوں کے بعد رستم نے کہا کہ اچھاہم تمہاری باتوں پر غور کر لیں اور اپنے اہل الرائے اشخاص سے بھی مشورہ لے لیں‘ ربعی وہاں سے اٹھے اور اپنے گھوڑے کے پاس آ کر اس پر سوار ہو کر سیدنا سعد بن ابی وقاص کی خدمت میں پہنچے۔ دوسرے روز رستم نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا کہ آج بھی میرے پاس اپنے ایلچی کو بھیج دیجئے‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے سیدنا حذیفہ بن محصن کو روانہ کیا‘ سیدنا حذیفہ بھی اسی انداز اور اسی آزادانہ روش سے گئے جیسے کہ سیدنا