تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلطنت اور رعایائے ملک نے فوقا کو تخت سے اتار کر قتل کر دیا اور افریقی مقبوضات کے گورنر یعنی فرما روائے مصر کو قسطنطنیہ کے تخت پر بٹھانے کے لیے دعوت دی‘ گورنر افریقہ تو پیرانہ سالی کی وجہ سے نہ جا سکا‘ لیکن اس کاجوان العمر و جواں بخت بیٹا ہرقل قسطنطنیہ میں تخت نشیں ہو گیا اور ہر قل کی شہنشاہی کو ارکان سلطنت نے بخوشی تسلیم کر لیا‘ مقتول قیصر فوقا اور خسرو پرویز کے درمیان دوستی و محبت کے تعلقات تھے‘ چنانچہ خسرو پرویز نے رومی سلطنت یعنی ہرقل پر حملہ کر دیا‘ کیونکہ ایک ایسے شخص کے تخت نشین ہونے کے بعد جووراثتاً تخت و تاج کا حق دار نہ تھا‘ ایرانیوں کے لیے سلطنت روم پر حملہ آور ہونے کا بہترین موقع تھا‘ ایرانیوں اور رومیوں میں لڑائی شروع ہوئی‘ ان لڑائیوں کا سلسلہ چھ سات سال تک جاری رہا۔ بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے آٹھویں سال ایرانیوں نے شام کا ملک فتح کر کے بیت المقدس پر قبضہ کیا اور عیسائیوں سے صلیب چھین کر لے گئے ساتھ ہی فلسطین کے تمام ملک کو فتح کر کے اسکندریہ تک پہنچ گئے۔ مشرکین مکہ نے ایرانیوں کی ان فتوحات کا حال سن کر بڑی خوشیاں منائیں کیونکہ رومی اہل کتاب اور ایرانی مشرک تھے‘ مسلمانوں کو مشرکوں کے مقابلہ میں اہل کتاب سے ہمدردی تھی اس لیے اس خبر سے مسلمانوں رنجیدہ ہوئے‘ خدائے تعالیٰ نے سورئہ روم کی آیات نازل فرمائیں‘ اور ان میں اطلاع دی کہ اگرچہ رومی اس وقت میں مغلوب ہو گئے ہیں لیکن چندسال کے بعد وہ غالب ہو جائیں گے اور مسلمان اس وقت مسرور ہوں گے۔ ۱؎ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ہر قل چھ سات سال تک برابر فوجی تیاریوں میں مصروف رہا‘ اس عرصہ میں اس نے اپنے ملک کے اندرونی انتظامات پر بھی پورے طور پر قابو پا لیا‘ ایرانیوں کو اپنی حدود مملکت سے نکالنے اور سابقہ ہزیمتوں کا انتقام لینے کے لیے نکلا اور بالآخر ملک شام کے میدانوں میں رومی لشکر نے ایرانیوں کو فیصلہ کن شکست دی‘ ایرانی بھاگے اور قیصر روم نے اپنے علاقے ایرانیوں سے خالی کرا لینے کے علاوہ ایرانیوں کے بعض صوبوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ ادھر رومیوں نے ایرانیوں پر فتح عظیم حال کی‘ ادھر بدر کے میدان میں مسلمانوں نے کفار مکہ کو شکست فاش دی‘ اور قرآن کریم کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی‘ اس کے بعد بھی ایرانیوں اور رومیوں میں لڑائی کا سلسلہ جاری رہا‘ ۷ ھ میں ابتداء میں رومیوں اور ایرانیوں کے درمیان صلح ہو گئی اور ایرانیوں نے وہ صلیب جو بیت المقدس سے لے گئے تھے رومیوں کو واپس کر دی‘ اس صلح نے ہرقل کی ۱؎ الروم ۳۱/۱ تا ۵۔ جامع ترمذی المحقق الالبانی a‘ ابواب المناقب‘ حدیث صحیح۔ فتوحات کو ایک طرف مکمل کر دیا‘ دوسری طرف ایرانیوں نے اپنے کھوئے ہوئے علاقے اور صوبے رومیوں سے واپس لیے‘ لہذا ایرانی بھی اس صلح سے خوش ہوئے‘ اس وقت ایرانی و رومی دونوں درباروں میں بیداری کے علامات نمایاں تھے‘ اور دونوں اپنی اپنی ترقی و مضبوطی کے لیے مناسب تدبیر میں مصروف ہو گئے تھے۔ اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بادشاہوں کے نام خطوط روانہ کئے‘ کیانیوں کے زمانہ میں ایران کا دارالسلطنت استخر تھا جس کو سکندر یونانی نے جلا کر خاک سیاہ کر دیا تھا‘ اب ساسانی خاندان کا دارالسلطنت مدائن تھا‘ ادھر ہرقل اپنی فتوحات اور صلیب کے واپس ملنے کی خوشی میں زیارت کے لیے بیت المقدس آیا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ