تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ اعلان کرایا کہ لوگو! اگر تمہارے اوپر کوئی اونیٰ حبشی غلام بھی حکمران یعنی خلیفہ ہو جائے تو تم اس کی فرمانبرداری کرو‘ اسلام ہی نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے اپنی زندگی کی آخری ساعتوں میں یہ کہلوایا کہ اگر آج ابو حذیفہ کا غلام سالم زندہ ہوتا تو میں اس کو اپنا جانشیں بنا دیتا۔ غرض یہ کہ اسلام نے خاندانی اور نسبی مفاخر کے بت کو پاش پاش اور ریزہ ریزہ کر دیا‘ یہ نہایت ہی عظیم اور گراں قدر خدمت تھی جو اسلام نے بنی نوع انسان کے لیے انجام دی‘ اور آج اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب اور قوانین پر فخر حاصل ہے کہ کسی سے بھی خاندانی فخر و تکبر کا مہیب بت اپنی جگہ سے نہ ہلایا گیا‘ لیکن اسلام نے اس کو ریزہ ریزہ کر کے اس کا غبار ہوا میں اڑا دیا۔ کس قدر حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ آج بہت سے مسلمان جو اسلام اور آئین اسلام کی پابندی کا دعوی کرتے ہیں یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ اسلام نے حکم دیاتھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم اور منشاء تھا کہ خلافت صرف قبائل قریش یا قبیلہ بنو ہاشم یا سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اولاد علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ مخصوص و مختص رہے اور دوسرے قبیلے کا کوئی شخص کسی حالت میں بھی خلافت کا مستحق نہ ہو سکے‘ اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے خدائے تعالیٰ قرآن مجید میں اس کی صاف طور پر ہدایت فرماتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے متعلق صاف صاف احکام صادر فرما جاتے‘ اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے احکام نازل فرما دئیے تھے اور وہ احکام چالاکی سے غاصبان خلافت نے چھپا لیے تھے تو پھر خدائے ۱؎ صحیحبخاریکتابالحدودحدیث۶۷۸۸۔ تعالیٰ نعوذ باللہ جھوٹا ٹھہرتا ہے جس نے وعدہ فرمایا تھا کہ {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ} (الحجر :۱۵/۹) اور نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی فرض تبلیغ کو ہرگز ہرگز پورے طور پر انجام نہیں دیا کہ حجۃ الوداع کے خطبہ میں بھی اپنے جانشیں اور خلافت کے بنو ہاشم میں مخصوص طور پر رہنے کی نسبت کچھ نہ فرمایا‘ حالانکہ اس خطبہ کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریباً سوا لاکھ آدمیوں کے مجمع میں اپنی تبلیغ کے مکمل کر دینے کا اعلان فرما دیا اور لوگوں سے اس کی تصدیق چاہی‘ پھر مرض الموت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذرا ذرا سی باتوں کے متعلق بھی جن کو ضروری سمجھا وصیت فرمائی‘ اگر کسی کا ایک درہم یا دینار آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قرض تھا تو اس کو ادا فرمایا‘ لیکن خلافت کے متعلق اس عظیم الشان قرضہ خلافت کو ادا نہ فرمایا ! بات وہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جانتے تھے کہ خلیفہ بنانے کا کام خدائے تعالیٰ کا ہے اور اس کام کے لیے اس نے نبی کو مطلق تکلیف نہیں دی‘ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خدائے تعالیٰ سے علم پا کر اس بات کو ضرور معلوم کر لیا تھا کہ میرے بعد خدائے تعالیٰ کس کو خلیفہ بنانے والا ہے‘ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیماری میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو نمازوں کی امامت کے لیے اپنا قائم مقام بنایا اور وصیت میں مہاجرین کو فرمایا کہ تم انصار کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ ۱؎ مہاجرین سے انصار کی اس طرح سفارش کرنا دلیل اس امر کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو علم ہو چکا تھا کہ میرے بعد خلافت انصار کو نہیں بلکہ مہاجرین کو ملنے والی