تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱؎ ترمذیبحوالہمشکوٰۃالمصابیحکتابالفضائلحدیث۵۸۲۲۔ ۲؎ صحیحبخاریکتابمناقبالانصارحدیث۳۹۰۶۔ ۳؎ ایضاًکتابالمغازیحدیث۴۱۰۱۴۱۰۴۴۱۰۶۔ ۴؎ صحیحبخاریکتابالھبہحدیث۲۵۶۷۔صحیحمسلمکتابالزھد۔ نکالے‘ جو کچھ موجود ہوتا وہی تناول فرما لیتے‘ بھوک نہ ہوتی یا مرغوب نہ ہوتا تو ہاتھ کھینچ لیتے تھے۔۱؎ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا بستر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر میں کس چیز کا تھا‘ انہوں نے فرمایا کہ ادھوڑی کا جس میں کھجوروں کی چھال بھری ہوئی تھی یہی سوال سیدنا حفصہ رضی اللہ عنھا سے بھی کیا گیا‘ انہوں نے فرمایا کہ ایک ٹاٹ کا ٹکڑا تھا جسے ہم دوہرا کر دیا کرتے تھے‘ ایک رات میں نے خیال کیا کہ اس کی چار تہیں کر دوں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو زیادہ آرام ملے‘ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا‘ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ رات تم نے میرے لیے کیا بچھایا تھا‘ میں نے کہا وہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ٹاٹ تھا‘ مگر اس کی چار تہیں کر دی تھیں‘ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو زیادہ آرام ملے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں تم اسے جیسا پہلے تھا ویسا ہی کر دو‘ اس نے رات مجھے نماز شب سے باز رکھا۔۲؎ وفات سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ میرے ورثاء کو میرے تر کے میں روپیہ پیسہ وغیرہ نقدی کچھ نہ ملے‘ ایک یہودی کے پاس آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زرہ بعوض تیس درہم گروی رکھی تھی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس زر نقد اتنا نہ تھا کہ اس کو چھڑا لیتے۔۳؎ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ترکہ میں اپنے ہتھیار‘ ایک خچر اورایک زرہ چھوڑی۔۴؎ ان چیزوں کی نسبت بھی یہی ارشاد تھا کہ خیرات کر دی جاتیں‘ کیا وہ لوگ اندھے نہیں ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نعوذ باللہ ذاتی اغراض ‘ نفسانی مقاصد‘ جاہ طلبی‘ حصول زر اور ملک گیری کے لیے اپنی قوم پر تلوار اٹھائی تھی؟ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں آٹھ برس کا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور برابر دس برس تک خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں رہا مگر اس طویل مدت میں کبھی ایک مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اف تک نہیں کی اور نہ یہ فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا اور وہ کام کیوں نہ کیا۔۵؎ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے کبھی کوئی فحش اور بیہودہ کلمہ نہیں نکلا۔۶؎ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ مشرکین کے لیے بددعا کیجئے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں لعنت کرنے کے لیے نہیں آیا ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ۱؎ صحیحبخاریکتابالاطعمۃحدیث۵۴۰۹۔ ۲؎ زادالمعادمترجم۱۱۶۷میں ایک مختصر روایت موجود ہے لیکن حفصہ رضی اللہ عنھا کے حوالہ کے بغیر۔ ۳؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۴۶۷۔ ۴؎ بخاریکتابالوصایاحدیث۲۷۳۹۔