تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تاریخ انگریزی تصانیف میں موجود ہے۔ اسلام سے پیشتر دنیا کے کسی ملک اور کسی قوم کو یہ توفیق میسر نہیں ہوئی کہ وہ فن تاریخ نویسی کی طرف متوجہ ہوتی یا اپنے بزرگوں کی صحیح تاریخ مدون و مرتب کرتی‘ اس حقیقت سے واقف ہونے کے لیے کہ اسلام سے پیشتر دنیا میں فن تاریخ نویسی کی کس قدر اعلیٰ سے اعلیٰ ترقی ہو چکی تھی‘ بائیبل کے صحیفوں اور مہابھارت ورامائن کے افسانوں کا مطالعہ کرنا کافی ہے‘ مسلمانوں نے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت وروایت میں جس احتیاط اور عزم و ہمت سے کام لیا ہے اس کی نظیر اس ربع مسکوں میں رہنے سہنے والی انسانی نسل ہرگز ہرگز پیش نہیں کر سکتی‘ اصول حدیث و اسماء الرجال وغیرہ مستقل علوم محض حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت و حفاظت کے لیے مسلمانوں نے ایجاد کئے‘ روایات کی چھان بین اور تحقیق و تدقیق کے لیے جو محکم اصول مسلمانوں نے ایجاد کئے ان کی نظیر دنیا نے اپنی اس طویل عمر میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔ مسلمانوں کا پہلا کارنامہ جو فن تاریخ سے تعلق رکھتا ہے علم حدیث کی ترتیب و تدوین ہے‘ اسی سلسلہ اور اسی طرز و انداز میں انہوں نے اپنے خلفاء‘ امراء و سلاطین ‘ علماء‘ حکماء وغیرہ کے حالات قلمبند کئے‘ اسی تمام ذخیرہ کو اسلامی تاریخ سمجھنا چاہیئے‘ مسلمانوں کی تاریخ نویسی دنیا کے لیے ایک نئی چیز اور بالکل غیر مترقبہ مگر بے حد ضروری سامان تھا‘ دوسری قومیں جب کہ اپنی بائیبل اورمہابھارت وغیرہ کتابوں کو مایہ ناز ’’تاریخی‘‘ سرمایہ سمجھتی ہیں تو انسان حیران رہ جاتا ہے‘ کہ مسلمان تاریخ خطیب کو بھی اپنی مستند تاریخی کتابوںکی الماریوں سے نکال کر جدا کر دیتے ہیں۔ آج یورپی مؤرخین فن تاریخ کے متعلق بڑی بڑی موشگافیوں سے کام لیتے ہوئے نظر آتے ۱؎ اسے اسلامی تاریخ نہیں بلکہ مسلمانوں کی تاریخ کہنا چاہیے کہ اس میں اسلام کی تاریخ بہت کم اور مسلمانوں کی تاریخ زیادہ موجود ہوتی ہے۔ پھر مسلمانوں کی اس تاریخ میں بھی بہت کچھ رطب و یابس مواد بھرا ہوتا ہے۔ ہیں اور مسلمان ان سے مرعوب اور ان کے کمال فن کی داد دینے میں پورے خلوص سے کام لے رہے ہیں‘ لیکن ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ شمالی افریقہ کے رہنے والے ایک اندلسی عرب خاندان کے مسلمان مورخ ابن خلدون کے مقدمہ تاریخ کی خوشہ چینی نے تمام یورپ اور ساری دنیا کو فن تاریخ کے متعلق وہ‘ وہ باتیں سکھا اور سمجھا دی ہیں کہ مورخین یورپ کی تمام مؤرخانہ سعی و کوشش کے مجموعہ کو مقدمہ ابن خلدون کے مجاور کی خدمت میں جاروب بنا کر مؤدبانہ پیش کیا جا سکتا ہے۔۱؎ مگر مسلمان مؤرخین کے علو حوصلہ اور رفعت ذوق کا اندازہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ علماء اسلام کی مجلس میں ابن خلدون کے بے نظیر مقدمہ تاریخ کو چھوڑ کر اصل تاریخ ابن خلدون کی کوئی غیر معمولی وقعت اور نمایاں عظمت مسلم نہیں ہے۔ ابن ہشام‘ ابن الاثیر‘ طبری‘ مسعودی وغیرہ سے لے کر احمد ابن خاوند شاہ اور ضیاء برنی تک‘ بلکہ محمد قاسم فرشتہ اور ملائے بدایونی تک ہزارہا مسلمان مؤرخین کی مساعی جمیلہ اور کار ہائے نمایاں جن ضخیم جلدوں میں آج تک محفوظ ہیں ان میںسے ہر ایک کتاب مسلمانوں کی مبہوت کن شوکت رفتہ اورمرعوب ساز عظمت گذشتہ کا ایک مرقع ہے‘ اور ان میں سے ہر اسلامی تاریخ اس قابل ہے کہ مسلمان اس کے مطالعہ سے بصیرت اندوز‘ اور عبرت آموز ہوں‘ لیکن کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اب فی صدی ایک