اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علیکم (۲) ورحمۃ اللہ (۳) وبرکاتہ، جس کسی نے ایک یا دو جزوں پر اکتفا کیا تو کافی ہے اور جس نے تینوں اَجزاء کو جمع کیا تو اُس نے مقصود کوحاصل کرلیا اور جب مقصود حاصل ہوگیا تو اُس پر اضافہ کرنا درست نہیں۔(المنتقٰی: ۴؍۲۸۰) (۱۰) امام محمدؒ نے موطا محمد میں لکھا ہے: إذا قال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، فلیکفف؛ فإن اتباع السنۃ أفضل یعنی اگر سلام کرنے والے نے سلام یوں کیا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تو اب وہیں رک جائے اضافہ نہ کرے؛ کیوں کہ سنت کی پیروی بہر حال افضل ہے۔(موطا امام محمد: ۳۸۵) اور موطا امام محمد کے شارح مولانا عبد الحئ لکھنویؒ نے اِس قول کی شرح میں لکھا ہے: العمل الکثیر في بدعۃ لیس خیرا من عمل قلیل في سنۃ وظاہرہ أن الزیادۃ علی ’’وبرکاتہ‘‘ خلاف السنۃ مطلقاً۔(التعلیق الممجد مع موطا امام محمد:۳۸۵) بدعت میں عملِ کثیر، سنت میں عمل قلیل سے بہتر نہیں ہے یعنی سنت کا عمل چاہے تھوڑا ہی ہو بدعت میں زیادتی ٔعمل سے بہر حال بہتر ہے؛ پس ظاہر یہی ہے کہ وبرکاتہ پر اضافہ مطلقاً خلافِ سنت ہے۔ تلک عشرۃ کاملۃ۔ خلاصۂ کلام: مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ سلام کا ادنیٰ درجہ السلام علیکم ہے، اِس پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور اگر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا جائے تو بیس نیکیاں اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سلام کا اعلیٰ درجہ ہے، اِس پر تیس نیکیاں ملتی ہیں، اور یہی حکم جواب کا بھی ہے؛ البتہ جواب ہمیشہ سلام کے مقابلہ میں اچھے الفاظ میں دینا چاہیے یعنی اگر کوئی صرف السلام علیکم کہے تو جواباً وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہنا افضل ہے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کسی نے کہا تو جواباً وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنا افضل ہے، اور اگر کسی نے ابتداء ً ہی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہہ دیا تو جواب میں وبرکاتہ پر اضافہ مسنون نہیں؛ کیوں کہ وبرکاتہ ابتداء ً اور جواباً سلام کی حد ہے اور سنت سمجھتے ہوئے حد کو پار کرنا درست نہیں۔ شواہد ومؤیدات مذکورہ دلائل کے علاوہ اس مسئلہ کے دیگر مؤیدات اور شواہد بھی ہیں۔ (۱) تَشَہُّد میں سلام کے الفاظ بھی ’’وبرکاتہ‘‘ پر ختم ہوتے ہیں: السلام علیک أیہا النبي ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ (مسلم، رقم: ۸۷۲) (۲) نماز سے نکلنے کے سلام کے عام الفاظ ،جو احادیث صحیحہ کثیرہ سے ثابت ہیں وہ رحمۃ اللہ تک ہیں؛ جب کہ بعض احادیث میں وبرکاتہ بھی ثابت ہے؛ لیکن وبرکاتہ پر ا ضافہ کسی روایت میں نہیں ہے۔ علقمہ بن وائلؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: صلیت مع النبيﷺ فکان یُسَلِّم عن یمینہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ (ابوداؤد: ۱؍۱۵۰) (۳) علامہ بیہقی ؒنے شعب الایمان میں زہرہ بن معبدؒ کی روایت نقل کی ہے: عروہ بن الزبیرؒ کو ایک آدمی نے یوں سلام کیا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تو عروہ ؒنے کہا: ما ترک لنا فضلا إن السلام انتہی إلی وبرکاتہ کہ اس نے ہمارے لیے کوئی فضیلت نہیں چھوڑی؛ بے شک سلام کی انتہا وبرکاتہ تک ہے۔(شعب الإیمان، رقم الحدیث: ۹۰۹۶)