اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چَرانے والے صاحب گذرتے تھے، تو یوں سلام کرتے تھے ’’السلام علیک یا رسول اللہ! تو رسول ا للہﷺ جواب یوں دیتے: وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ ورضوانہ…الحدیث (عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی: رقم: ۲۳۵، منتھی رد السلام) اس حدیث میں ’’وبرکاتہ‘‘ پر دو الفاظ ومغفرتہ ورضوانہ کا اضافہ ہے؛ لیکن مذکورہ حدیث ضعیف ہے، محققین کی آراء پڑھیے: علامہ نوویؒ کہتے ہیں: روینا في کتاب ابن السني بإسناد ضعیف عن أنس۔ (الأذکار: ۲۰۹) حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں: وأٰخرج ابن السني في کتابہ بسندٍ واہٍ من حدیث أنس ۔(فتح الباری:۱۱؍۶) حافظ ابن قیمؒ لکھتے ہیں: وأضعف من ہذا، الحدیثُ الآخر عن أنس۔ (زاد المعاد: ۲؍۴۱۸) خلاصہ یہ کہ مذکورہ حدیث ابوداؤد والی حدیث سے بھی زیادہ ضعیف ہے اور بقول ابن حجرؒ: اس کی سند واہی تبا ہی ہے؛ لہٰذا وبرکاتہ پر اضافہ کی مسنونیت پر استدلال درست نہیں۔ (۳) عن زید بن أرقم قال: کنا إذا سلم النبيﷺ علینا، قلنا: وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب نبیﷺ ہمیں سلام کرتے تو ہم جواب میں وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہکہا کرتے تھے۔(شعب الإیمان: رقم: ۸۸۸۱، فصل فی کیفیۃ السلام) اس حدیث پر بھی شارحینِ حدیث نے کلام کیا ہے؛ چناں چہ محقق حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں: وأخرج البیہقي في ’’الشعب‘‘ بسندٍ ضعیف أیضا، من حدیث زید بن أرقم۔(فتح الباری: ۱۱؍۶) حاصل گفتگو: سلام وجوابِ سلام میں ومغفرتہ وغیرہ کے اضافہ کے جواز کے بارے میں یہ چند روایات ذکر کی گئیں؛ جن کا حال ظاہر ہوا کہ علمی اعتبار سے ضعیف ہیں؛ جب کہ دوسری طرف سلام اور جوابِ سلام کا ’’وبرکاتہ‘‘پر ختم ہونا اور اُس پر اضافہ کے عدمِ جواز کی روایات سامنے آگئیں؛ لہٰذا اب ثابت یہ ہوا کہ ابتداء ً اور جواباً دونوں صورتوں میں سلام کی آخری حد وبرکاتہ ہے اور یہی مسنون ہے۔ حافظ ابن حجر کی رائے حافظ ابن حجرؒ شارحِ بخاری نے اِن روایات پر گفتگو کرتے ہوئے اخیر میں لکھا ہے: وہذہ الأحادیث الضعیفۃ إذا انضَمَّت قوي ما اجتمعت علیہ من مشروعیۃ الزیادۃ علی ’’وبرکاتہ‘‘ یعنی وہ روایات جنہیں محدثین نے ضعیف کہا ہے، اگر انہیں جمع کیا جائے اور اُن کے شواہد وتوابع کو دیکھا جائے تو کم از کم اتنا تو ثابت ہوسکتا ہے کہ ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ پر اضافہ مشروع ہے۔(فتح الباری:۱۱؍۶) شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ کی رائے موطا مالک کے حنفی شارح شیخ الحدیث صاحب نور اللہ مرقدہ اوجز المسالک میں لکھتے ہیں: