اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۱) مسلم: ۲۱۶۳،باب النہي عن ابتداء أہل الکتاب (۲) بخاری: ۳۳۲۶،باب خلق آدم سے اچھا جواب دے، پہلا عدل ہے، دوسر افضل ہے اب جواب دینے والے نے علیکم السلام کہہ دیا تو یہ جواب بالمثل اور عدل ہے؛ لہٰذا صحیح ہے (خلاصہ زاد المعاد: ۲؍۳۸۵) فیصلہ: علامہ ابن قیمؒ نے اِن دونوں رایوں کو ذکر کرنے کے بعدیہ بحث ذکر کی ہے کہ یہودیوں کے سلام کے جواب میں احادیث میں وعلیکم ہے یا صرف علیکمہے؟ روایتیں دونوں طرح کی ہیں، ابن القیم کا رجحان اِس جانب ہے کہ اثباتِ واو، والی روایتیں صواب اور احسن ہیں؛ غالباً اِس سے یہی ثابت کرنا ہے کہ السلام علیکم کے جواب میں وعلیکم السلامکہنا زیادہ بہتر اور سنت کے قریب ہے؛ تا ہم جائز(۱) وعلیکم السلام بھی ہے؛ کیوں کہ ایسی بحث جب اہل کتاب کے جواب کے سلسلے میں کی جاسکتی ہے تو یہی حکم مسلمان کے سلام کے جواب کا بھی ہونا چاہیے، اس کی مزید تفصیل ’’غیر مسلم کو سلام کرنے کا مسئلہ‘‘کے تحت آئے گی۔ ایک ناقص رائے مذکورہ بالا دونوں آراء اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں، دونوں کے دلائل ہیں؛ لیکن اگر مولف راقم الحروف سے پوچھا جائے کہ زیادہ صحیح رائے کون سی ہے؟ تو مولف عرض کرے گا کہ پہلی رائے زیادہ صحیح ہے اور اس کے دلائل ذرا مضبوط ہیں؛ کیوں کہ دوسری رائے والوں کی پہلی دلیل آیتِ قرآنی ہے، اُس کے بارے میں یہ عرض کیا جاسکتا ہے :کہ اُس میں صرف مہمانوں کی آمد کے وقت سلام اور جوابِ سلام کی حکایت ہے، الفاظِ سلام اور جوابِ سلام کے طریقہ کو بتانا مقصود نہیں ہے؛ غالباً اِسی وجہ سے سلام کے ساتھ علیک یا علیکم کاتذکرہ ضروری نہیں سمجھا گیا؛ کیوں کہ حکایتِ واقعہ میںیہ گنجائش ہوتی ہے کہ اصل واقعہ کی جگہ اُس کا اہم جُزذِکرکر دیا جائے(۲)اورخلق آدم کے (۱) قال النووي: وأما صفۃ الرد فالأفضل والأکمل أن یقول: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛ فیأتي بالواو؛ فلو حذفہا جاز، وکان تارکا للأفضل،عمدۃ القاری: ۱۵؍۳۴۶، نقلا عن شرح النووی۔ (۲) جیسے کوئی شخص کسی کا سلام پہنچاتا ہے تو وہ یوں کہتا ہے: فلاں نے آپ کو سلام کہا ہے، سلام کے تمام الفاظ استعمال نہیں کرتا؛ پھر بھی اِس سے پوراسلام مراد ہوتا ہے۔ قصے میں تو ایک احتمال یہ بھی ہے کہ انہوں نے جواب نہیںدیا تھا؛ بلکہ حضرت آدم کو دیکھ کر خود ہی سلام کرنے کا ارادہ کیا تھا، مرقاۃ المفاتیح میں ملا علی قاری نے اِس قول کی صراحت کی ہے۔(۵؍۴۷) رہ گئی تیسری دلیل تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جواب بالمثل کا یہ بالکل ادنی درجہ ہے؛ ورنہ جواب بالمثل کا مطلب یہ ہے کہ سلام کرنے والے کے جواب میں کم از کم ’’وعلیکم السلام‘‘ کہنا ضروری ہے، اور اگر جواب بالمثل کا مطلب یہ ہو کہ ’’ علیکم السلام‘‘ کہہ دو تو وعلیکم السلام (بالواو) فحیوا بأحسن منہا کا مصداق بن سکتا ہے کہ اس میں ’’واو‘‘ کا اضافہ ہے؛ حالاں کہ اس کا کوئی قائل نہیں۔