اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور لفظ’’یا مرشد اللہ‘‘وغیرہ جُہَلَا کے ایجاد کیے ہوئے ہیں، کہ سلام کی جگہ اِس کو بولتے ہیں؛ لہٰذا بدعت ہے مع ہذا اِس کے بعض معنی مُوہِم کفر کے ہیں، مرشد اللہ کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ تم اللہ کے مرشد ہو(معاذ اللہ)؛ اگر چہ دوسرے معنی درست بھی اِس کے ہیں، سو جو کلمہ ایسا ہو اُس کے معنی اچھے اور برے دونوں ہوسکتے ہیں، اُس کو بولنا منع ہے(۲) (فتاوی رشیدیہ،ص:۱۵۰) سلام اور جوابِ سلام میں جہر اور سنانا ضروری ہے سلام چاہے ابتداء ً ہو یاجواباً ہو: بہر حال ایک دوسرے کو سنانا ضروری ہے، بغیر سنائے نہ تو سلام، سلام ہوگا اور نہ ہی جواب، جواب ہوگا، سلام ایک مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے، جہر کے بغیر اِس کا مقصد حاصل نہیں ہوگا، حضورﷺ اور صحابۂ کرام کا یہی معمول تھا کہ سلام اور جوابِ سلام میں جہر کرتے تھے؛ لیکن یہ بلند آواز معتدل ہو، آواز اِتنی تیز نہ ہو کہ سننے والے کو دِقّت اور تنگی محسوس ہو اور نہ ہی آواز اتنی پست ہو کہ سلام کرنے والے یا سننے والے سن ہی نہ سکیں۔ (۱) یہ گنجائش اور جواز کی بات ہے؛ ورنہ سنت تو السلام علیکم سے ہی ادا ہوگا۔مولف ۔ (۲) یہ مسئلہ حضرت گنگوہیؒ کے ملفوظات میں ہے، ممکن ہے کسی علاقہ میں کسی دور میں سلام کی جگہ’’یا مرشد اللہ‘‘ بولنے کا رواج رہا ہو، حضرتؒ نے اُس کو منع کیا ہے۔مولف۔ دلائل: حافظ ابن حجرؒنے حضورﷺ کے ارشاد أفشوا السلام بینکم (اپنے درمیان سلام کو رواج دو) کی شرح میں لکھا ہے: ۱- الإفشاء، الإظہار والمراد نَشْرُ السلام بین ا لناس؛ لیُحْیُوا سنتہ۔ افشاء ،اظہار کو کہتے ہیں: اور مقصد اِس سے لوگوں کے درمیان سلام کو پھیلانا ہے؛ تاکہ لوگ آپ کی سنت کو زندہ کریں۔(فتح الباری: ۱۱؍۲۰) ۲- علامہ نوویؒ کے حوالے سے علامہ عینیؒ نے لکھا ہے: وأقل السلام ابتداء ً ورداًّ أن یُسمِعَ صاحبہ، ولا یجزئہ دون ذلک۔ سلام اور جوابِ سلام میں کم از کم درجہ یہ ہے کہ مُتَعَلِّقہ شخص کو سنایا جائے، اور اس سے کم سلام کافی نہیں۔(عمدۃ القاری: ۱۵؍۳۴۶) علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں: ۳- فکذلک إذا أجاب بجوابٍ لم یُسمَعْ منہ، فلیس بجوابٍ۔ اگر کوئی جواب دے اور سنائے نہ ،تو وہ جوابِ سلام نہیں ہے۔(الجامع لأحکام القرآن:۵؍۳۰۳) ایک شبہ اور اس کا جواب سوال (۳۵۷) سلام کا جواب اگر آہستہ دیا کہ مسلَّم نے نہ سنا، تو جواب ادا ہوگا یا اِسماع بھی ضروری ہے، بعض صحابہؓ نے (۱) آں حضرتﷺ کے سلام کا جواب نہایت آہستہ سے دیا کہ بوجہ عدم سماع، تکرارِ سلام کی نوبت آئی، آخر حضور واپس ہوئے تھے؛ گو علت یہاں استماعِ کلام وتحصیل برکت ہے، مگر بظاہر شبہ جواز کا معلوم ہوتا ہے۔