اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حدیث میں ہے: ایک صاحب نے نبی کریمﷺ سے پوچھا جب ہم میں سے کوئی اپنے بھائی یا اپنے دوست سے ملے تو اس کی اجازت ہے کہ اس کے سامنے جھکے؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ (ترمذی،رقم: ۲۷۲۹، باب ماجاء فی المصافحۃ) ممانعت کی وجہ کیاہے؟ فإنہ في معنی الرکوع وہو کالسجود من عبادۃ ا للہ سبحانہ۔(۱) یعنی جھکنا رکوع کے مشابہ ہے اور یہ سجدہ کی طرح ہے اور جیسے غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرنا حرام ہے، رکوع کرنا بھی حرام ہے؛ لہٰذا صرف جھکنا یا سلام کے ساتھ جھکنا جس طرح کورنش بجالاتے ہیں ممنوع ہے۔ مولانا یوسف صاحب لدھیانویؒ لکھتے ہیں: مجوسیوں کے یہاں یہی طریقہ تھا کہ وہ بادشاہوں، امیروں اور افسروں کے سامنے جھکتے تھے، اسلام میں اِس فعل کو ناجائز قراردیا گیا ہے، ٹریننگ کا مذکورہ اصول اسلامی احکام کے منافی ہے۔ (آپ کے مسائل:۷؍۲۶۶) لہٰذا مسلم بچوں کو اِس سے پرہیز کرنا چاہیے اور سینٹر کے ذمہ داروں کو اسلامی احکام سے رُوشناس کرانا چاہیے، ان شاء اللہ وہ مان جائیں گے، اگر نہ مانیں تو مسلم بچوں کو انکار کرنا چاہیے؛ کیوں کہ خدا کی ناراضی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ مجلس کا ایک ادب اگر مجلس میں کوئی خاص گفتگو ہورہی ہو تو نئے آنے والے کو چاہیے کہ خواہ مخواہ سلام کرکے (۱) تحفۃ الاحوذی:۷؍۴۲۶۔ اپنی طرف متوجہ کر کے سلسلہ گفتگو میں مزاحم نہ ہو؛ بلکہ چاہیے کہ چپکے سے نظر بچا کر بیٹھ جائے، پھر موقع سے سلام وغیرہ کرسکتا ہے۔(آداب المعاشرت در اصلاحی نصاب:۴۷۱) سلام صاف الفاظ میں کیجیے جب سلام کیا جائے تو صاف الفاظ سے سلام کرنا چاہیے، الفاظ بگاڑ کر مسخ کر کے سلام نہیں کرنا چاہیے، بعض لوگ اس طرح سلام کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے پوری طرح سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا الفاظ کہے؟ اُسے پوری طرح واضح کر کے السلام علیکم کہنا چاہیے۔(اصلاحی خطبات:۶؍۱۶۱) اہل السنۃ والجماعۃ اور اہل بدعت کی مخلوط مجلس میں سلام اگر کوئی مسلمان شخص کا گذر ایسی جگہ سے ہو؛ جہاں اہل السنۃ والجماعۃ اور اہل بدعت: دونوں موجود ہیں تو سلام عمومی الفاظ کے ساتھ ہی کرے یعنی السلام علیکم کہے؛ البتہ نیت یہ کرے کہ وہ اہل السُّنۃ کو سلام کررہا ہے، یہی حکم اُس وقت ہے جب مجلس میں اچھے برے، انصاف پسند اور ظالم اور محبوب ومبغوض دونوں طرح کے لوگ موجود ہوں۔(فتح الباری:۱۱؍۴۸)