اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلام کا تاریخی پس منظر تحیہ اور سلام کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنی انسان کے زمین پر آباد ہونے کی تاریخ قدیم ہے؛ چوں کہ سلام، ایک دوسرے سے ملاقات،تعارف اور حصولِ شنا سائی کے حوالے سے بنیادی اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے؛ اس لیے دنیا کی تمام متمدن قوموں میں اس کا رواج پایا جاتا تھا اور پایا جاتا ہے، ہاں طریقے اور انداز الگ الگ تھے اور ہیں، ذیل میں ان کا تقابلی جائزہ پیش کیاجاتا ہے؛ تاکہ اسلامی سلام کی معنویت، گہرائی وگیرائی اور جامع ومکمل ہونے کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکے۔ مختلف اقوام میں سلام کا طریقہ ابو طالب مکیؒ نے ’’کتاب التحیات‘‘ میں مختلف گروہوں اور قوموں کے طریقہ ہائے سلام کا تذکرہ کیا ہے، شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی ؒنے اپنی کتاب ’’أوجز المسالک‘‘ میں ’’شرح الإقناع‘‘ کے حوالے سے اسے نقل کیا ہے، اختصار کے ساتھ پیش ہے۔ یہودی اور عیسائی سلام اور جوابِ سلام یا دونوں کے لیے محض اشاروں پر اکتفا کرتے تھے، سلام کا لفظ نہیں بولتے تھے؛ چناںچہ ترمذی کی روایت ہے : تسلیم الیہود، الإشارۃُ بالأصابع وتسلیم النصاری، الإشارۃ بالأکف یعنی یہودیوں کا سلام کرنا، انگلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنے اور عیسائیوں کا سلام کرنا ہتھیلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔(ترمذی، رقم الحدیث: ۲۶۹۵، کراہیۃ إشارۃالید بالسلام) اہل کسری کا سلام اپنے بادشاہ کے سامنے سجدہ اورزمین بوسی کے ذریعہ ہوتا تھا اور فارس کے لوگ اپنے بادشاہ کے سامنے زمین پر اپنے ہاتھوں کو ڈال دیتے تھے، اور اہل حبشہ ملاقات کے وقت سکون واطمینان کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھ لیتے تھے، رومی لوگ سلام کے وقت سر کھول کر جھکادیتے تھے، حِمْیَر کے لوگ سلام کے وقت پکار کر انگلیوں سے اشارہ کرتے تھے، یمامہ کا تحیہ یہ تھا کہ جس کو سلام کرنا ہے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا جاتا تھا، اگر حد درجہ اظہار محبت مقصود ہوتا تو بار بار ہاتھ کو رکھا اور اٹھایا جاتا تھا، اور اہل نوبہ کا سلام یہ تھا کہ سلام کرنے والا اپنے ہاتھ کو اپنے سر اور چہرہ پر رکھ دیتا اور اپنے منھ سے اشارہ کرتا تھا۔(أوجز المسالک : ۱۷ ؍۲۰۷) مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اسلام کی آمد سے قبل جو متمدن قومیں آباد تھیں اُن کے سلاموں میں تلفظ کے بجائے صرف اشاروں پر اکتفا کیا جاتا تھا؛ البتہ عربوں کے سلام میں الفاظ تھے؛ چناں چہ حدیث میں ہے: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ کا بیان ہے: کہ ہم لوگ اسلام سے پہلے ملاقات کے وقت آپس میں أَنْعَمَ اللّٰہُ بِکَ عَیْناً (خدا آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب کرے) اور أنعِمْ صَبَاحاً (تمہاری صبح خوش گوار ہو) کہا کرتے تھے ،جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کردی گئی یعنی اس کے بجائے ہمیں ’’السلام علیکم‘‘ کی تعلیم دی گئی۔ (ابوداؤد، رقم الحدیث: ۵۲۳۷) اسی طرح مجوسی بھی الفاظ میں سلام کیا کرتے تھے اور کہتے تھے: ہزار سال بزی، ہزار سال جیو! (حجۃ اللہ البالغۃ: ۲؍۱۹۶)