اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مسلمانوں کے نام لے کر ان کی نجات کے لیے دعا کی ہے؛ پس معلوم ہوا کہ یہ کلام الناس نہیں، تحفۃ القاری:۳؍۵۲۳، در شرحِ حدیثِ بخاری، رقم:۱۲۰۲۔ جائز ہے اور حنفیہ کا مذہب یہ لکھا :کہ بعض ان میں کراہت کے قائل ہیں اور بعض حنفیہ کہتے ہیں: لا بأس یعنی کوئی حرج نہیں(التعلیق الممجد) خلاصہ: امام صاحب کے یہاں اشارے سے جواب دینا مکروہ ہے اور ائمہ ثلاثہ کے نزدیک جائز ہے اور یہی قرینِ قیاس بھی ہے کہ جب ان کے نزدیک نمازی کو سلام کرنا جائز ہے تو جواب بھی جائز ہونا چاہیے، اور ہمارے نزدیک جب سلام کرنا ہی مکروہ ہے تو اشارے سے جواب دینا بھی مکروہ ہوگا۔ دلائل: حنفیہ کا مستدل اس سلسلے میں حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ کی وہ روایت ہے جو پیچھے گذری ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں نماز کے اندر اس طرح کی حرکات جائز تھیں، بعد میں اس واقعہ سے منسوخ ہوگئیں اور امام طحاوی کا رجحان یہ ہے کہ کلام فی الصلاۃ کے نسخ کے ساتھ، اشارے سے سلام کا جواب دینا بھی منسوخ ہوگیا۔(درس ترمذی:۲؍۱۳۸) ائمہ ثلاثہ کا مستدل بہت سی روایتیں ہیں مثلا: ترمذی نے باب ماجاء في الإشارۃ في الصلاۃ کے تحت دو روایتیں ذکر کی ہیں، تفصیل کے لیے اعلاء السنن دیکھیں، حنفیہ نے ان سب روایات کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ:یہ ممکن ہے کہ اشارہ سے مراد سلام سے منع کرنا ہو۔ خلاصہ بحث: عموماً احناف کی کتابوں میں اشارے سے سلام کے جواب کو مکروہ لکھا ہے؛ لیکن بعض فقہاء احناف مثلا: ابن ہُمامؒ، علامہ حلبی ؒاور ابن نجیمؒ وغیرہ نے عدم کراہت کا قول بھی اختیار کیا ہے۔ ذکر ابن نجیم نقلا عن العلامۃ الحلبي: وفعلہ علیہ الصلاۃ والسلام لہا؛ إنما کان تعلیما للجواز فلا یوصف بالکراہۃ۔ آپﷺ کا اشارے سے جواب دینا جواز کی تعلیم کے لیے تھا؛ لہٰذا اس فعل کو مکروہ نہیں کہا جائے گا۔البحر الرائق:۲؍۱۰۹،مزید تفصیل کے لیے فتح القدیر :۱؍۴۲۳ اور شامی :۲؍۳۷۳ کا مطالعہ کریں، اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اشارے سے سلا م کے جواب دینے کے سلسلے میں دونوں طرح کے اقوال ہیں، اس باب میں مفتی سعید احمدصاحب پالن پوری کی رائے یہ ہے : البتہ فرض نمازمیں مجبوری کے بغیر کوئی اشارہ نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں کہ وہ بارگاہ خداوندی کی خاص ملاقات ہے اور نوافل چوں کہ پرائیویٹ ملاقات ہیں ؛اس لیے ان میں اشارہ کرنے کی گنجائش ہے۔(تحفۃ الالمعی:۲؍۱۹۵) اذان، تکبیر یا جماعت کے وقت سلام کرنا بقول علامہ شامیؒ کے: جو شخص اذان دے رہا ہو یا اقامت کہہ رہا ہو، اُسے سلام کرنا مکروہ ہے، اِسی طرح اگر کسی نے اِن اوقات میں سلام کردیا تو جواب دینا بھی مکروہ ہے۔(رد المحتار:۲؍۳۷۳) فتاویٰ عالمگیری میں ہے: اذان واقامت کی حالت میں سلام کا جواب دینا مکروہ ہے اور فراغت کے بعد جواب دینا