اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلام تحیہ کا مفہوم السلام علیکم کا معنی اللہ تعالیٰ کے نام ہونے کے لحاظ سے یہ ہوا کہ: اللّٰہ رقیب علیکم اللہ تعالیٰ تمہارا محافظ ونگہبان رہے کلأ اللّٰہ علیک وحفظہ۔ تم اس کی حفاظت میں رہو، اس کے نام کی برکت تم پر نازل ہو، جس طرح کہا جاتا ہے: اللّٰہ معک ومصاحبک۔ اللہ تعالیٰ تمہارا ساتھی ہو، وہ تمہارے ساتھ ہو۔ (عمدۃ القاری :۱۵؍۳۵۱) اور اگر ’’السلام‘‘ اسم مصدر بمعنی سلامۃً (سلامتی) کے ہو تو پھر سلام تحیہ کا مفہوم ہے، سلامۃُ اللّٰہِ علیکم۔ اللہ کی سلامتی تم پر ہو، اور تم ہمیشہ سلامت رہو۔ (۱) فائدہ: ذکر محمد بن یزید: أن السلام في لغۃ العرب، أربعۃ أشیاء: (۱) فمنہا سلمتُ سلاماً مصدر سلَّمت(۲) منہا السلام جمعُ سلامۃ (۳) ومنہا السلام اسم من أسماء اللّٰہ تعالیٰ(۴) ومنہا السلام شجر(لسان العرب س ل م) ولم یرد في القرآن غالبا إلامنکرا، أیضا۔ والسلام ہو اسم اللّٰہ، فالمعنی اسم اللّٰہ علیکم أي أنت في حفظہ۔ وقیل: السلامۃ أي السلامۃ مستعلیۃ علیک، ملازمۃ لک۔ (ارشاد الساری :۱۳؍ ۲۲۹) علامہ بیہقیؒ نے ایک مفہوم یہ بھی ذکر کیا ہے کہ جیسے بسم اللہ سے برکت وسعادت کے حصول کی خواہش کی جاتی ہے، اور جو اس کا مفہوم ہے، وہی مفہوم ’’السلام علیکم‘‘ کا ہے، سلام کرنے والا جان ومال اور آل واولاد میں برکت کی دعا دیتاہے۔ وقد قیل: معناہ اسم السلام علیکم أي اسم اللہ علیکم أي کانت فیکم البرکۃ ولکم الیمن والسعادۃ کما فیما ذکر بسم اللہ۔(شعب الایمان : ۶؍ ۵۱۳) ابن قیمؒ لکھتے ہیں: ’’السلام علیکم‘‘دو معانی پر مشتمل ہے، ’’السلام‘‘ اللہ تعالیٰ کے نام ہونے کے لحاظ سے اللہ کا ذکر ہے اور مطلب ہوا: اسم السلام علیکم، والسلام ہنا ہو اللہ عزوجل ومعنی الکلام نزلت برکۃ اسمہ علیکم وحلت علیکمیعنی تم پر اللہ کے نام کی برکت نازل ہو، اور سلام بمعنی سلامتی بھی ہوسکتا ہے؛ لہٰذا جو بندہ السلام علیکمکہتا ہے وہ اللہ کے نام کے ذکر کے ساتھ اسی اللہ سے سلامتی بھی طلب کرتا ہے۔(بدائع الفوائد: ۲؍۱۴۳) اور سلام کے معنی عیوب ونقائص سے پاک کے ہوں تو السلام علیکم کا مطلب ہوگا کہ: ا للہ تعالیٰ تم سے باخبر ہیں؛ لہذا تم غافل مت رہو۔ (لسان العرب : س ل م ) خلاصۂ کلام : ابن قیمؒ لکھتے ہیں: اس سلسلے میں فیصلہ کن بات یہ ہے کہ دونوں معانی لازم ملزوم ہیں؛ کیوں کہ ضابطہ ہے کہ انسان اگر اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے اللہ سے سوال کرنے میں خاص اس وصف کا لحاظ رکھناچاہیے جو اسے مانگنا ہے مثلا: اسے توبہ واستغفار کرنا ہے تو وہ ’’یا غفور‘‘ کے ذریعہ اللہ سے توبہ کرے، عافیت کی دعا کرنی ہے تو اللہم إنک عفو کریم کہہ کر دعا کرے، رزق مانگنا ہے تو یا رزاقکہہ کرمانگے، ایسے ہی یہ مقام ’’طلب سلامتی‘‘ کا ہے؛ لہذا اللہ کے اسماء حسنی میں لفظ ’’السلام‘‘کے ذریعہ سلامتی کی دعا مانگے۔(بدائع الفوائد :۲؍۱۴۳)