اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ودوستی قائم نہ کرو، اور کیا میں تمہیں ایک ایسا ذریعہ نہ بتادوں، جس کوتم اختیار کرو تو آپس میں دوستی کا تعلق قائم ہوجائے اور وہ ذریعہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کا چلن عام کرو۔(مسلم، رقم الحدیث: ۱۹۴، کتاب الإیمان) فائدہ: علامہ طیبیؒ لکھتے ہیں: سلام کو رواج دینا اورایک دوسرے کو سلام کرنا، آپسی الفت ومحبت اور اتحاد واتفاق کا ذریعہ ہے، جس کی وجہ سے اسلام مضبوط ہوتا ہے اور یہ آپسی محبت، کمالِ ایمان کا سبب ہوتا ہے، جس پر ہر خیر وبھلائی کی بنیاد ہے،اور اس کے بر خلاف ترکِ سلام اور ترکِ تعلق، دینِ اسلام کو کمزور کرنے کا سبب اور نقصانِ دین کا ذریعہ ہے۔ (حاشیۃ الطیبی:۹؍۷) سلام کا فائدہ اور اس کی مشروعیت کی وجہ سورہ زمر آیت ۷۳ میں ارشاد پاک ہے: کہ جب متقی لوگ جنت پر پہنچ جائیں گے تو محافظ فرشتے ان سے کہیں گے: السلام علیکم تم پر سلامتی ہو، تم مزے میںرہو، پس جنت میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہوجاؤ۔ نبی ﷺ نے سلام کا فائدہ اور اس کی مشروعیت کی وجہ بیان کی ہے کہ: سلام محبت پیدا کرتا ہے، اور محبت دخولِ جنت کا سبب ہے؛ اس لیے سلام مشروع کیا گیا؛ اس کی تفصیل یہ ہے کہ دخولِ جنت کے لیے لازمی شرط ایمان ہے اور کمالِ ایمان کے لیے، مسلمانوں کے درمیان رشتۂ الفت ومحبت ضروری ہے؛ کیوں کہ یہ وصف اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، اور اس کو حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ سلام کو پھیلانا ہے، یعنی اس کو رواج دینا ہے، جب لوگ خلوص سے ایک دوسرے کو سلام کریں گے اور ان کو خو ش آمدید کہیں گے، جس طرح فرشتے جنتیوں کو خوش آمدید کہیں گے تو باہم الفت ومحبت پیدا ہوگی اور وہ جنت میں لے جائے گی، یہی کام مصافحہ اور دست بوسی وغیرہ بھی کرتے ہیں۔(رحمۃ اللہ الواسعۃ: ۵؍۵۴۵) ابن حجرؒ، ابن العربیؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں: افشاء سلام کا فائدہ، حصولِ محبت تو ہے ہی؛ لیکن اس کی وجہ سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ، ایک دینی فضا قائم ہوتی ہے اور شریعت پر عمل کرنا آسان ہوتا ہے، جس سے اسلام مضبوط ہوتا ہے اور ظاہر سی بات ہے جب اسلام اور اہلِ اسلام مضبوط ہوں گے تو کفا ر و مشرکین اور یہود ونصاری کا زور ٹوٹے گا، ایک مضبوط ہوگا تو دوسرا خود بخود کمزوری کا شکار ہوگا اور کمزوری سے مراد ’’ إخزاء الکافرین‘‘ کفار ومشرکین کی رسوائی وپسپائی ہے۔ وکان ذلک لما فیہ من ائتلاف الکلمۃ؛ لتعم المصلحۃ بوقوع المعاونۃ علی إقامۃ شرائع الدین وإخزاء الکافرین۔ (فتح الباری: ۱۱؍ ۲۴) مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس حدیث سے صراحۃ معلوم ہوا کہ ایمان جس پر داخلۂ جنت کی بشارت اور وعدہ ہے، وہ صرف کلمہ پڑھ لینے کا اور عقیدہ کا نام نہیں ہے؛ بلکہ اتنی وسیع حقیقت ہے کہ اہلِ ایمان کی باہمی محبت ومودت بھی اس کی لازمی شرط ہے اور رسول اللہﷺ نے بڑے اہتمام