اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ اُن کے دستر خوان پر کوئی اہم ڈِش اور پکوان (۱) بخاری: ۶۰۱۸، فی ا لادب۔ (۲) الحشر: ۹۔ کی مختلف قسمیں نہیں تھیں؛ لیکن اُن کے دل میں اِکرامِ ضَیف کا ایسا جذبہ تھا کہ اس جذبہ کی قدر دانی رب کائنات نے قرآن میں آیت نازل کرکے ،کی۔ لہٰذا مہمان یا مسافر آئیں تو گھبرانا نہیں چاہیے؛ بلکہ بشاشت اور خندہ پیشانی اور پُرتپاک اندازمیں گرمجوشی کے ساتھ سلام ومصافحہ کرنا چاہیے، مرحبا کہتے ہوئے استقبال کرنا چاہیے، خوش آمدید کے ترانے پڑھنا چاہیے، پھر جو کچھ میسر ہو پیش کرنا چاہیے، اصل مہمان نوازی وہی ہے جو تَکَلُّفات سے خالی ہو، ما حَضَر پیش کردینا، مہمان نوازی کی بے عزتی نہیں ہے؛ مہمان نوازی کا مطلب ہم نے پر تکلُّف مہمان نوازی بنادیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ مہمان سے کتراتے ہیں، جس کے نتیجہ میں سلام ومصافحہ بے دلی سے ہوتاہے، صحابہ کرامؓ مہمان کو دیکھ کر مرحباً وأہلا کہا کرتے تھے، (۱) خوش ہوتے تھے اور جو کچھ ہوتا پیش کردیتے تھے؛ گو مہمان کے اعزاز میں تکلف کی بھی اجازت ہے۔ مسلمانوں کے دلوں کو جوڑنے کا آسان نسخہ حضورﷺ کا ارشاد ہے: أفشوا السلام بینکم تحابوا (۲) یعنی سلام کو رواج دو، محبت پیدا ہوگی، علامہ مناویؒ اِس کی شرح میں لکھتے ہیں: اس حکم میں ایک بڑی مصلحت ہے، وہ یہ کہ یہ مسلمانوں کے قلوب جوڑنے کا آسان نسخہ ہے، آپسی مدد اور ایک دوسرے کے باہمی تعاون کی ضمانت ہے، حسد، کینہ اور دشمنی کے خاتمے کے لیے بہت ہی سہل ترکیب ہے، اُخوت ومحبت کے حصول کے لیے افشائِ سلام ایک بڑا تحفہ ہے، شیخ ابن العربیؒ لکھتے ہیں: افشاء ِسلام کا فائدہ، حصولِ الفت ومحبت ہے، جس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شریعت پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے، لوگ اِس سلسلے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، اور اس میں کافروں کی رسوائی کا سامان بھی ہے، مذکورہ حدیث کے الفاظ اِس طرح بھی آئے ہیں: أفشوا السلام فإنہ للہ تعالیٰ رضاً(۳) یعنی سلام کو رواج دو، یہ چیز ا للہ کی خوش نودی کا ذریعہ ہے، (۱) مسلم: ۲۰۳۸ فی الأشربۃ۔ (۲) الجامع الصغیر للسیوطی:۱۲۲۸۔ (۳) الجامع الصغیر للسیوطی:۱۲۲۹ یہ ایسا فعل ہے کہ اللہ، اِس فعل کے کرنے والے سے خوش رہتے ہیں، أفشوا السلام کي تعلوا بھی مروی ہے، یعنی سلام کو رواج دو؛ تاکہ تمہیں سرخ روئی حاصل ہو یعنی سلام کو رواج دینا، آپسی محبت کا ذریعہ ہے، جب مسلمانوں میں آپسی محبت ہوگی تو اتحاد واتفاق ہوگا، اُن کی جمعیت مضبوط ہوگی، اور جس کی جمعیت مضبوط ہوتی ہے وہ قوم غالب او رحاکم رہتی ہے اور جس کی جمعیت پارہ پارہ ہوتی ہے وہ قوم مغلوب ومحکووم ہوجاتی ہے، آج ہماری محکومی اور مظلومی کا بہت بڑا سبب متحد نہ ہونا ہے، انتشار وخلفشار کا شکار ہونا ہے، اور اِس اختلاف وانتشار کے جہاں اور بہت سے اسباب ہیں، ایک بنیادی سبب ترک ِسلام بھی ہے، أفشو ا السلام کي تعلوا کی روشنی میں کیااِس سے انکار ممکن ہے؟اللہ