اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ صحابی نئے تھے حضور کو پہچانتے نہیں تھے) میں بیٹھ گیا اچانک وہاں ایک جماعت تھی جن میں آپ بھی تھے اورمیں پہچانتا نہیں تھا اور آپ اِس جماعت کے درمیان مُصَالحت کرارہے تھے پھر جب آپ کام سے فارغ ہوئے(اور چلنے کے لیے اٹھے) تو آپ کے ساتھ اُن میں سے بعض حضرات کھڑے ہوئے، تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ سُن کر میں نے آپ کو پہچان لیاتو میں نے علیک ا لسلام یا رسول اللّٰہ، علیک السلام یا رسول اللہ، علیک السلام یا رسول اللہکہا نبیﷺنے فرمایا: علیک السلام مُردے کا سلام ہے، پھر آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو چاہیے کہ کہے : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، پھر نبیﷺ نے میرے سلام کا جواب دیا وعلیک ورحمۃ اللہ وعلیک ورحمۃ اللہ وعلیک ورحمۃ اللہ۔(ترمذی: ۲۸۶۵-باب ۲۸ ؍ابواب الاستیذان) تشریح: یہ ایک جزئی واقعہ ہے اس پر مسئلہ کی بنیاد نہیں رکھ سکتے، اصل مسئلہ وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا سلام اور جوابِ سلام ایک مرتبہ ہے، روایت کی شرح میں مفتی سعیداحمد صاحب لکھتے ہیں: یہ صحابی چوں کہ نو و ارد تھے؛اِس لیے انہوں نے تین مرتبہ سلام کیا اور غلط طریقہ پر سلام کیا؛ چناں چہ آپ نے پہلے ا ُن کو سلام کرنے کا صحیح طریقہ بتایا پھر آپ نے بھی اُن کو تین مرتبہ جواب دیا یہ تین مرتبہ جواب دینااُن کی دلداری کے لیے تھا، ورنہ شرعاً ایسا کرنا ضروری نہیں۔(تحفۃ الالمعی:۶؍۴۹۷) ابتداء ً علیک السلا م سے ممانعت کی حکمت آپﷺنے سلام کے آغاز میں علیک السلامیا علیکم السلامکہنے سے منع فرمایا ہے اور علت یہ بیان کی کہ یہ مُردوں کا سلام ہے، در حقیقت آپ نے اِس جملے سے مُردوں کے سلسلے میں، عرب میں رائج سلام کی جانب اشارہ کیا ہے کہ عرب کے لوگ عموماً جب مُردوںکو سلام کرتے ہیں تواُن کا نام یااُن کے نام پر دلالت کرنے والا لفظ پہلے استعمال کرتے ہیں اور سلام کا لفظ بعد میں؛ چناں چہ شعراء کے کلام سے اِس کی تائید ہوتی ہے، شعر پڑھیے: علیک سلامُ اللہ قیس بن عاصم...................................ورحمتہ ما شاء أن یترحما اے قیس! تم پر اللہ کا سلام اور اس کی رحمت ہو، جتنا وہ چاہے۔ دیکھیے قیس بن عاصم کی موت پر اُسے جو سلام کیا گیا ہے، اس میں علیک پہلے ہے، معلوم ہوا کہ ایسے سلام سے آپ کا منع کرنا اِس بنیاد پر تھا کہ عرب کے لوگ مُردوں کو ایسے ہی سلام کرتے تھے، آپ نے اُسی مروّج عادت کی جانب اشارہ کیا ہے۔(زاد المعاد: ۵؍۳۸۵) الدر المنضود کے مولف لکھتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ عرف جاہلیت میں مَوتٰی کو سلام کرنے کاطریقہ یہی تھا یعنی علیک السلام اور یا مطلب یہ ہے کہ یہ طریقہ سلام کا صرف اَموات کے لیے مشروع ہے، اَحیاء کے لیے نہیں؛ جس کی وجہ دو ہیں : اول یہ کہ یہ صیغہ احیاء میں مشروع، جواب کے لیے ہے کہ ِاس طرح سلام کے جواب میں کہا جاتا ہے؛ پس اگر اِس صیغہ کو شروع ہی میں