اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بار بار سلام کرنے کی حکمت ہر لمحہ تغیر پذیر ہے، شریعت نے انسانی حالت کی معمولی تبدیلی کے بعد دوبارہ سلام کرنے کا حکم دیا؛ تاکہ امن وامان کا جو معاہدہ ہے، اُس کی تجدید ہوتی رہے اور محبت والفت میں مزید پختگی پیدا ہو؛ چناں چہ انہیں وجوہات کی وجہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بازار جانے کا معمول تھا؛ تاکہ وہاں لوگوں کو سلام کرکے جہاں ایک طرف سلام کی فضیلت حاصل کریں، وہیں دوسری طرف آپسی محبت میں اضافہ کا سبب بنیں؛ تاکہ امن وآشتی کا ماحول بنا رہے۔(مرقاۃ:۹؍۵۷) (۱) شعب الایمان:۳۵۳۴۔ بچوں کو سلام کرنے کی حکمتیں حضرت انسؓ سے مروی ہے: کہ رسول اللہﷺ کچھ لڑکوں کے پاس سے گذرے تو آپ نے اُن کو سلام کیا۔(مسلم:۲۱۶۸) بلا شبہ آپ کا یہ عمل انکساری اور دنیاوالوں کے تئیں انتہائی درجے کی شفقت ومحبت کی علامت ہے، اِس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ گھر کے بڑے بوڑھوں کو، مدرسے کے اساتذہ کو اور خانقاہوں کے پیرومسترشدین کو گاہے بہ گاہے چھوٹے لڑکوں،طلبہ اور مریدین کو سلام کرتے رہنا چاہیے؛ تاکہ اُن کی اپنی تربیت ہو اور وہ سنتِ سلام کو رواج دینے کے عادی بنیں، شرح ابن بطال میں ہے: وفیہ تدریب لہم علی تعلیم السنن وریاضۃ لہم علی آداب الشریعۃ لیبلغوا حد التکلیف، وہم متأدبون بأدب الإسلام۔ (شرح ابن بطال: ۹؍۲۵) اسی کے ساتھ ساتھ بچوں کو سلام کا جواب دینے پر آمادہ کریں۔ وینبغي لولیہ أن یأمرہ بالرد؛لیتمرّن علی ذلک۔ (فتح الباری:۱۱؍۴۱) تعارض کا حکیمانہ حل حضرت انسؓ والی حدیث سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ نے بچوں کو سلام کیا؟ حالاں کہ ایک دوسری روایت میں ہے ک چھوٹی عمر والا، بڑی عمر والے کو سلام کرے(۱) دونوں احادیث میں ایک گونہ تعارض ہے، حضرت شاہ صاحبؒ نے اِس کا حل پیش کیا ہے اور ساتھ میں حضورﷺ کے سلام کی حکمت بیان کی ہے، رحمۃ اللہ الواسعہ سے پوری عبارت نقل کی جاتی ہے۔ دنیا کا عام دستور ہے کہ گھر میں آنے والا، گھر والوں کو سلام کرتا (۱) بخاری:۶۲۳۴۔ ہے، اور ادنیٰ بڑے کو سلام کرتا ہے، نبیﷺ نے اِس رواج کو بحالہ باقی رکھا؛ چناں چہ چھوٹوں کو حکم دیا کہ بڑوں کو سلام کریں، اور گذرنے والے کو -جو گھرمیں آنے والے سے مشابہ ہے- حکم دیا کہ وہ بیٹھے ہوؤں کو سلام کرے، اور تھوڑوں کو - جو تھوڑے ہونے کی وجہ سے ادنیٰ ہیں- حکم دیا کہ وہ زیادہ کو سلام کریں۔