اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کہ وہ چیز اُن بزرگ سے بالکل زائد ہو ورنہ سہل یہ ہے کہ چیز اپنے پاس سے یہ کہہ کر اُن کو دے دو کہ آپ اس کا استعمال کر کے ہم کو دیجیے۔(ص:۴۷۰) نوٹ: بعض دفعہ کسی بزرگ کے پاس آنے والا بہت شرمیلا اورکم گو ہوتا ہے، وہ جا کر بھی کچھ نہیں بول پاتا؛ اس لیے بڑوں کو بھی پوچھ لینا چاہیے کہ آنے کاکوئی خاص مقصد تو نہیں ہے، اِس سے حوصلہ ملتا ہے۔(مولف) حاجی سے سلام ومصافحہ حج ایک عاشقانہ عبادت ہے اور دین کے اُن پانچ بنیادی ستونوں میں سے ایک اہم اور جلیل القدر ستون ہے، جن پر اسلام کے عقائد واحکام کی پوری عمارت کھڑی ہے، اس کی فرضیت قرآن کریم سے ثابت ہے، گو حج کا رواج حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے ہے؛ بلکہ اُن سے پہلے انبیاء کے بارے میں بھی اقوال ملتے ہیں کہ انہوں نے حج کیا؛ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ُاس وقت حج فرض نہیں تھا؛ بلکہ یہ امت محمدیہ پر فرض ہوا، بہ الفاظ دیگر حج اِس امت کی خصوصیت ہے، ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں: ثم اختلف في أن الحج کان واجبا علی الأمم قبلنا أم وجوبہ مختص بنا لکما لنا، والأظہر الثاني۔ (مرقاۃ: ۵؍۲۶۳ کتاب المناسک) حج کی دولت جسے نصیب ہوجاتی ہے اُن کے نصیبہ ور ہونے میں کوئی شک نہیں ہوتا، حج کی توفیق بے پناہ اجر وثواب کا باعث ہے، ایک روایت میں ہے: والحج المبرور لیس لہ جزاء إلا الجنۃ۔(۱) یعنی حج مبرور کا بدلہ جنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے، دوسری روایت میں ہے: من حج للہ فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہ۔(۲) یعنی جو شخص اللہ کے واسطے حج کرے اور (دورانِ حج)نہ عورت سے ہم بستری کرے اورنہ فسق میں مبتلا ہو تو وہ اِس طرح (بے گناہ ہو کر) واپس آتا ہے جیسے (اُس دن بے گناہ تھا) کہ جس دن اُس کو اُس کی ماں نے جناتھا۔ جب حج کے ایسے فضائل ہیں اور حاجی حج کر کے گناہوں سے بالکل پاک صاف ہوجاتا (۱) بخاری، رقم: ۱۷۷۳۔ (۲) بخاری، رقم:۱۵۲۱۔ ہے تو وہ اللہ کا مقرب بندہ ہوجاتا ہے، اُس کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے؛ لہٰذا اُس کی واپسی پر اُس سے ملنا، اس کو سلام کرنا، مصافحہ کرنا، اُس کا استقبال اور اُسے خوش آمدید کہنا اور اُس سے اپنی اصلاح اور اپنے گناہوں سے مغفرت کی دعا کی درخواست کرنا سب کارِ ثواب ہوں گے، اللہ بندوں کی مغفرت کے بہانے ڈھونڈ تا ہے، کیا پتہ حاجی کی دعا ہی اُس کی مغفرت کا ذریعہ بن جائے؛ چناں چہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: إذا لقیت الحاجَّ فسلم علیہ وصافحہ ومرہ أن یستغفرلک قبل أن یدخل بیتہ، فإنہ مغفور لہ۔(احمد:رقم: ۶۱۱۲)