اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۱) اور یہی محرومی بوقت ملاقات سلام میں ہوتی ہے وہاں بھی عموماً اس نیت کا استحضار نہیں ہوتا۔ استاذ وشاگرد کامجروح ہوتا ہوا رشتہ --- سلام، کوتاہی اور حل مدارس میں اساتذہ اور طلبہ کی آپسی میل جول، رہن سہن، اِفادہ واستفادہ، درس وتدریس اور تعلیم وتربیت روزہ مرہ کے معمولات میں سے ہیں، ایک پڑھانے، سکھانے اور دینی تربیت اور اخلاق وتہذیب بتانے کو اپنا فریضہ سمجھتا ہے، دوسرا پڑھنے، سیکھنے اور تربیت واخلاق حاصل کرنے کے لیے اپنا گھر بار، ماں باپ، وطنِ مالوف اور اچھی ،بے فکر اور پُر لطف زندگی کو خیر باد کہے ہوئے ہے، دونوں کے پاس کئی سال ہوتے ہیں کہ اُن سالوں میں اپنی زندگی میںانقلاب پیدا کرلیں؛ اور قرونِ ماضیہ میں اِس کی اتنی مثالیں ملیں گی کہ ان کو ترتیب دے کر اہلِ خرد نے کئی کتابیں ترتیب دے ڈالی ہیں۔ استاذ وشاگرد کا رشتہ ایک مقدس، پاکیزہ اور تاریخی رشتہ ہوتاہے؛ لیکن استاذ کا واقعی شفیق وکریم اور مخلص استاذ کی مثال ہونا نا گزیر ہے، اِسی طرح شاگرد کا لائق وفائق اور مطیع وفرماں بردار اور کچھ سیکھنے کے نیک جذبہ سے سر شار ہونا ضروری ہے، اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ طالب علمانہ وضع قطع اور شاگردانہ طرز ِزندگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے، اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسا طالب علم بن جائے کہ فرشتے اپنے پر بچھائیں، مچھلیاں سمندروں میں اور چیونٹیاں اپنے بِلو ں میں اُس کے لیے دعائیں کریں۔ اِس رشتے کی بنیادوں کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کے لیے ،اور ان نیک بنیادوں پر اپنی تعمیر وترقی اور تہذیب واخلاق کی بلند وبالا عمارت کھڑی کرنے کے لیے،سلام کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے بنیاد میں، بنیادی پتھر، سلام ایک ایسی کنجی ہے، جس سے استاذ وشاگرد کے درمیان پائے جانے والے فاصلے کے مضبوط سے مضبوط دروازے واکیے جاسکتے ہیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کو سلام کرنے میں سبقت کریں اور نیت ہو کہ ِاس سے اُن کی تربیت ہوگی، کل کو یہی شاگرد، استاذ کی مسند پر بیٹھیں گے تو اگلی نسلوں تک یہ میراث پہنچائیں گے، اور شاگرد کو استاذ سے زیادہ سلام کرنے میں پہل کرنی چاہیے، اس کا حق بھی بنتا ہے، وہ طالب ہے استاذ مطلوب ہے، طلبہ اپنے استاذ کو سلام کی شکل میں، جو ہدیۂ محبت پیش کریں گے تو اس کی قیمت مادی ہدیہ سے زیادہ ہوگی؛ بالخصوص وہ طالب علم جو اپنے استاذِ محترم سے کچھ لینا چاہتا ہے، تو اُس استاذ کی پاکیزہ قربت کے حصول کے لیے سلام سے بڑھ کر کوئی اور ذریعہ نہیں ہے، آپ خلوص سے دو چار بار استاذ کو سلام کریں، مصافحہ کریں، استاذکی توجہ آپ پر یقینی طور سے پڑے گی، اور اگر استاذ کی توجُّہ آپ پر ہوگئی تو یقین مانیے(اگرچہ اب یقین ماننے والے کم ہیں) آپ کو وہ سب کچھ حاصل ہوسکتا ہے جو کتابوں سے حاصل نہیں ہوسکتا، کتاب تو الفاظ ہیں، الفاظ کے معانی اساتذہ ہیں، کتاب تو جسم ہے روح اساتذہ ہیں ، کتاب تو پھول ہے، خوشبو اساتذہ ہیں، فیصلہ آپ کریں آپ کو کیالینا ہے، اگر کچھ لینا ہے تو اساتذہ کو خلوص دل سے سلام کریں؛ کیوں کہ سلام، اساتذہ وطلبہ کی باہمی محبت کا ذریعہ ہے اور یہی پاکیزہ اور مقدس محبت اصل جو ہرہے، جس طالب علم کو یہ پاکیزہ