اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ روایت اگر چہ ضعیف ہے؛ لیکن نفسِ ثبوت پر اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (۷) تمیم ابن مسلمہؒ کہتے ہیں :کہ جب حضرت عمرؓ شام تشریف لائے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے آپ کا استقبال کیا فأخذ بیدہ تو ا نھوں نے اُن کا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ کیا اور ہاتھوں کو چوما، حضرت تمیم کہتے ہیں: کانوا یرون أنہا سنۃ۔یعنی صحابہؓ اسے مسنون سمجھتے تھے، حضرت شعبیؒ کا کہنا ہے: کان أصحاب النبيﷺ یصافح بعضہم بعضا۔ (شرح السنۃ:۱۲؍۲۹۲) (۸) حضرت قتادہ ؒکہتے ہیں: کہ حضرت ایاس بن نبہشؒ نے حضرت انسؓ سے مسئلہ پوچھا: أرأیت الرجل یلقی أخاہ جابیا من سفر یأخذ بیدہ؟ کہ بتائیے کوئی شخص اپنے بھائی سے سفر سے واپسی پر ملاقات کرے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ کرسکتا ہے؟ حضرت انسؓ نے کہا: قد کان أصحاب رسول اللہﷺ یتصافحون۔کہ صحابۂ رسول کا تو یہ معمول تھا، یعنی مصافحہ کرنا چاہیے۔ (شعب الایمان : ۸۹۴۳، فصل فی المصافحۃ) (۹) نعمان بن حمید ؒکہتے ہیں: میں اپنے ماموں حضرت عباد بن شرحبیلؒ کے ساتھ حضرت سلمانؓ کے پاس گیا، فلما رآہ صافحہ سلمان، جب انہوں نے دیکھا تو حضرت سلمان ؓنے اُن سے (ماموں سے) مصافحہ کیا۔(المصنف:۶؍۱۳۷) فقہی عبارتیں (۱) (ولا بأس بالمصافحۃ) لأنہ ہوالمتوارث۔ وقال علیہ الصلاۃ والسلام: من صافح أخاہ المسلم وحرَّک یدہ تناثرت ذنوبہ۔(ہدایہ مع تکملہ شرح فتح القدیر:۶۲) (۲) (کالمصافحۃ) أي کما تجوز المصافحۃ؛ لأنہ سنۃ قدیمۃ متواترۃ۔(الدر المختار مع رد المحتار:۹؍۵۴۷) اِن تمام روایات وتصریحات کی روشنی میں فقہاء نے کہا ہے: کہ مصافحہ کے مستحب ومسنون ہونے پر علماء کااتفاق ہے؛ اگرچہ امام مالکؒ کی طرف کراہت کا قول منسوب ہے؛ چنانچہ کتاب المنتقٰی میں ہے: فعلی ہذہ الروایۃ یحتمل أن یرید - واللہ أعلم - فيالحدیث، المصافحۃ أن یصفح بعضہم عن بعض، من الصفح وہو التجاوز والغفران وہو أشبہ؛ لأن ذلک یذہب الغل في الأغلب، واحتج مالک لمنع المصافحۃ بالید بقولہ عزوجل إذ دخلوا علیہ فقالوا سلما قال سلٰم قوم منکرون(۱) ولم یذکروا مصافحۃ، وقولہﷺ یذہب الغل أي العداوۃ، ومعنیٰ ذلک أنہ إذا صفح عن أخیہ، وصفح عنہ أخوہ، ذہب ما في أنفسہما من الغل۔ (المنتقٰی:۷؍۲۱۶) لیکن ہاتھوں سے مصافحہ کے ثبوت پر روایتیں اتنی زیادہ ہیں کہ انکار کی گنجائش نہیں؛ یہی وجہ ہے کہ امام مالکؓ کی طرف دوسرا اور آخری قول ،استحباب کا منسوب ہے، ابن بطالؒ لکھتے ہیں: المصافحۃ حسنۃ عند عامۃ العلماء، وقد استحبہا مالک بعد کراہۃ۔ (۹؍۴۸) شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلویؒ صاحب ،الزرقانیؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں: وروی عن مالک خلافہ، وہو الذي یدل علیہ معنی ما في ’’الموطا‘‘ وعلی جوازہا جماعۃ العلماء سلفا وخلفا وفیہ آثار۔(اوجز المسالک: ۱۶؍۱۲۷، کتاب حسن الخلق) تقریباً یہی بات ابن حجرؒ نے لکھی ہے: قال ابن عبد البر: روی ابن وہب عن مالک أنہ کرہ المصافحۃ والمعانقۃ، وذہب إلی ہذا سحنون وجماعۃ، وقد جاء عن مالک جواز المصافحۃ وہو الذي یدل علیہ صنیعہ في الموطأ، وعلی جوازہ جماعۃ العلماء سلفا وخلفا، واللہ أعلم۔(فتح