اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوسری حکمت اِس حکم میں یہ ہے کہ اگر آدمی اپنے بڑے اور اَشرف کی قدر پہچانے، اُس کی توقیر کرے، اور بڑھ کر اُس کو سلام کرے، تو اِس سے سوسائٹی کی شیرازہ بندی ہوتی ہے، لوگ باہم مربوط ہوتے ہیں؛ ورنہ بڑوں اور چھوٹوں میں رشتہ ٹوٹ جاتا ہے؛ اِسی لیے حدیث میں فرمایا: کہ جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا حق نہ پہچانے وہ ہم میں سے نہیں۔(۱) البتہ نبیﷺ یہ بات بھی جانتے تھے کہ سلام لینے میں ایک طرح کی خود پسندی ہے، چھوٹا جب بڑے کو سلام کرتا ہے تو اُس کو فخر محسوس ہوتا ہے؛ چناں چہ نبی ﷺ نے اپنے فعل سے بڑوں کو تواضُع اور خاک ساری کی تلقین کی کہ اُن کو سلام کرنے میں پیش قدمی کرنا چاہیے؛ کیوں کہ بڑھ کر سلام کرنے والا تکبر سے پاک ہوتا ہے(۲) اور سوار کو حکم دیا کہ پیادہ کو سلام کرے؛ اِس میں خصوصیت سے یہ بات ملحوظ ہے؛ کیوں کہ سوار لوگوں کے نزدیک بڑی ہیبت والا ہوتا ہے اور وہ بھی خود کو بڑا تصور کرتا ہے؛ اِس لیے اس کو تاکید کی کہ وہ اپنے اندر تواضع پیدا کرے اور پیادہ کو سلام کرے۔(رحمۃ اللہ الواسعہ: ۵؍۵۴۶) (۱) ابوداؤد، رقم:۴۹۴۳ ۔ (۲) مشکوٰۃ ،رقم:۴۶۶۶۔ ایسی ہی بات فتح الباری میں ہے: في السلام علی الصبان، تدریبہم علی آداب الشریعۃ، وفیہ طرح الأکابر، رداء الکبر وسلوک التواضع، ولین الجانب۔(فتح الباری:۱۱؍۴۱) یعنی دو مقصد سے بچوں کو سلام کرنے کا حکم ہے: بچے سلام سیکھیں گے، بڑے خود پسندی اور تکبر سے بچیں گے۔ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دوسری جگہ لکھتے ہیں: بچے مستقبل کی امت ہیں، کل ہم نہیں رہیں گے اور وہ ہماری جگہ لیں گے؛ اس لیے بچوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، پس جس طرح بچوں کو تمرین کے لیے نماز پڑھوائی جاتی ہے اور روزہ رکھوایا جاتا ہے، اُسی طرح اُن کو سلام بھی کیا جائے؛ تاکہ وہ سلام کرنا اور جواب دینا سیکھیں، علاوہ ازیں بڑوں کا چھوٹوں کو سلام کرنا تواضع کی دلیل ہے۔(تحفۃ الألمعی:۶؍۴۷۶) ایک مجلس میں تین مرتبہ سلام کرنے کی حکمت حضرت انسؓ سے مروی ہے: کہ حضورﷺ لوگوں کے پاس آتے تو انہیں تین مرتبہ سلام کرتے تھے۔(بخاری: ۶۲۴۴) عام حالات میں آپﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ سلام ایک مرتبہ کیا کرتے تھے اور یہی مسنون ہے۔ وقول أنس: أنہ کان إذا تکلم بکلمۃ أعادہا ثلاثا، یرید في أکثر أمرہ وأخرج الحدیث مخرج العموم، والمراد بہ الخصوص۔ (شرح ابن بطال: ۷؍۲۲) آپ کا تین مرتبہ سلام کرنا کسی وقتی اور عارضی مصلحت وضرورت کی وجہ سے ہوتا تھا؛ چناں چہ ابن قیمؒ لکھتے ہیں: اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مجمع کثیر ہوتا تھا او رایک سلام تمام لوگوں تک